امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی نائب کمالا ہیرس اس وقت بہت سارے اندرونی اور بیرونی چلینجز سے نبردآزما ہیں اور یہ مسائل حقیقی ، خوفناک اور بہت اہم ہیں ۔ کرونا وبا سے نبرد آزما ہونے سے لے کر، معیشت کی بحالی، چین کی تجارت اور اس کی پھیلتی معیشت کا سامنا،ایسے چلینجز تھے جن کا سامنا انہیں اقتدار میں آتے ہی کرنا پڑا اور یہ مسائل تاحال حل ہونے کے قریب نہیں ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ان چیلنجز کے ساتھ ساتھ بائیڈن اور کمالا کی صدارت کو افغان میں ایک دلدل کا سامنا بھی ہے۔ اس نہ ختم ہونے والے جنگ کو ختم کرنے کے لیےبائیڈن انتظامیہ اس مئی سے اپنے فوجی افغانستان سے نکالنےپہ تیار تھی تاہم دوحہ معاہدے کے باوجود طالبان کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے افغانستان سے امریکی افواج کا اںخلاء غیر ضرورتی تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔
امریکہ اور افغان طالبان کے مابین دوحہ معاہدہ فروری 2020 میں طے پایا تھا ، جس میں امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی اتفاق رائے تھا کہ طالبان افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ بدقسمتی سے دونوں اطراف کو ابھی تک اپنے وعدوں کی تکمیل کرتی ہے تاکہ اس طویل جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔ طالبان دہشت گردوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کے وعدے پر پورا نہیں اتر رہے اور نہ ہی خطے سے تشدد کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ طالبان کی جانب سے مسلسل پرتشدد کارروائیون اور خون خرابے کی وجہ سے امریکہ اس خطے سے نکلنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے ۔
ایک خوش آئند قدم کے طور پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ 11 ستمبر 2001 کی یاد کے موقع پر اس دن تک اپنی تمام افواج کو افغانستان سے نکال لے گا۔ اسی دن القاعدہ نے امریکہ پر حملہ کر کے امریکہ کو جنگ میں کودنے پر مجبور کردیا تھا جس کے نتیجے میں امریکہ بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ خوش قسمتی سے یہ طویل جنگ اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پنیٹا گون کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان سے امریکی افواج کو مکمل طور پر نکال لیں گے؟ پینٹا گون امریکہ کے فوجی دستوں کے فوری اور مکمل انخلاء پر خدشات کا شکار ہے کیونکہ امریکی انخلا کے ساتھ ہی خطے میں خون اور آگ کا نیا کھیل شروع ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس خطے میں موجود مختلف جنگجووں کو محفوط پناہ گاہیں بھی میسر آجائیں گے اور وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل باآسانی کر سکیں گے اور پورا خطہ ایک مرتبہ پھر دہشت گرد سرگرمیوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔
پینٹا گون کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ طالبان نے امن معاہدے کے باوجود القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے تعلقات منقطع نہیں کیے ہیں ۔ طالبان اور القاعدہ ابھی تک ایک ہی نظریے کے تحت کندھے سے کندھا ملا کر اسلامک امارات آف افغانستان کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ اتحاد بیرونی طاقتوں کے انخلا کے بعد افغانستان کے اقتدار پر نظریں جمائے بیٹھا ہے ۔ طالبان ایک مرتبہ 1996 سے 2001 ایک والا سابقہ دور افغانستان میں واپس لا کر ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے امریکہ طالبان دوحہ معاہدہ اس وقت مشکل صورتحال میں ہے اور شاید فوری طور پر اس معاہدے کی تکمیل اور امن کا حصول ممکن نہ ہو۔دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف سخت مؤقف اختیار کر رکھا ہے ۔ دونوں طرف سے عدم اعتماد اور خدشات کی وجہ سے یہ خطہ ایک مرتبہ پھر عدم استحکام کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔
طالبان کے سخت اقدامات کے نتیجے میں تشدد اور اموات بڑھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان معاہدے توڑنے اور ان کی خلاف ورزی میں بھی بہت بدنما ہیں۔ افغانستان سے اس وقت تک تشدد اور جنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک طالبان کی اعلٰی قیادت لچک اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے اس امن معاہدے کو اس کے صحیح معنوں میں لاگو نہیں کرتی۔ بین الاقوامی برادری کو طالبان کو اس معاہدے کی خلاف ورزی پر کٹہرے میں لانا چاہیے اور اس پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ ہر حال میں دوحۃ معاہدے کی پاسداری کرے۔ بین الاقوامی برادری اس بات کو یقینی بنائے کہ دونوں طرف سے دوحۃ معاہدے کی مکمل پاسداری کی جائے۔
اس موقعی پر ایک مشترکہ سیاسی فریم ورک کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین طاقت کے اشتراک کے فارمولے کو حتمی شکل دے سکے کیونکہ طالبان چاہتے ہیں کہ انہیں ایک جائز سیاسی جماعت تسلیم کیا جائے۔ یہ بات تو طے ہے کہ افغانستان میں اس وقت تک قیام امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا جب تک طالبان کو مکمل طور پر جائز اور قانونی سیاسی قوت تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اور سب سے آخری مگر اہم بات یہ ہے کہ طالبان کو سیاسی قوت اسی وقت تسلیم کیا جائے جب وہ مکمل طور پر پرتشدد کارروائیوں سے باز آجائیں۔