شہبازشریف کی جیل سے آمد کے ساتھ ہی ن لیگ کے بیانیے پر بہت سارے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ نواز ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہے کہ اب کس کے پیچھے چلنا ہے مریم نواز کے پیچھے یا شہباز شریف کے پیچھے؟ 27 مئی کو شہباز شریف صاحب نے کامران خان کو جو انٹرویو دیا تھا اگر اس کے جزئیات پر نظر دوڑائی جائے تو شہباز شریف صاحب نہ صرف ن لیگی ووٹرز بلکہ اپنی قیادت کو یہ پیغام دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ن لیگ کے تصادم کے بیانیے کو مسترد کرتے ہیں۔ شہباز شریف کے کیریر پر اگر بطور سیاست دان نظر دوڑائی جائے تو وہ عموما انٹرویوز اور اس طرح کی چیزوں سے دور رہتے ہیں تاہم ان کا حالیہ انٹرویو اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ ایک ایسے انیکر کو دیا گیا ہے جو کہ حکومتی کیمپ کا حصہ ہے اور عمران خان کے قریبی حلقوں میں سے سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے شہباز شریف صاحب کے اس انٹرویو پر بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا مسلم لیگ نواز "ووٹ کو عزت دو” کے بیانیے کو ترک کر کے مفاہمت کا رستہ اختیار کرنے جارہی ہے اور اس کام کا ٹاسک شہباز شریف صاحب کو کس نے دیا ہے؟ اور کیا نواز شریف اور مریم نواز اس پہ راضی ہوجائیں گے؟
اس انٹرویو میں انہوں نے اس بات کے واضح اشارے بھی دیے تھے کہ وہ کسی بھی قیمت پر مفاہمت چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف ایک سٹیٹسمین ہیں، اور وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ وہ نیشن بلڈنگ کے لیے راضی ہوں گے۔ ’اگر ہم ایک ریکنسیلیشن اور نیا عمرانی معاہدہ کریں، فری اینڈ فیئر الیکشن ہو اور تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں، تو تمام متعقلہ اداروں کے ساتھ مل کر ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے روڈ میپ طے کر سکتے ہیں۔ اور نواز شریف اس کے لیے تیار ہوں گے۔‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ نے خود کہا ہے کہ نواز شریف نے بڑی عزت دی اور ڈیفینس کے حوالے سے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ ’جب میں جاؤں گا لندن علاج کے لیے تو میں ان کے ساتھ مشاورت کروں گا۔ وہ میرے بڑے بھائی، قائد اور والد کی جگہ ہیں۔ اور وہ راضی ہوں گے بشرطیکہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہو۔ پی ڈی ایم کے حوالے سے بھی ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں کوئی ایک جماعت کسی کو نکالنے یا رکھنے کی مجاز نہیں ہے۔ جبکہ دوسری جانب مریم نواز صاحبہ کا مؤقف ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی شو کاذ نوٹس کا جواب نہیں دیتی تب تک اس کو دوبارہ پی ڈی ایم میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ ایک طرف تو مریم نواز عمرانی ٹولے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت مؤقف اپنائے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف شہباز شریف صاحب انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمران خان تو خطوط میں مجھے میرے منصب سے بھی مخاطب نہیں کرتے، میں پھر بھی دل پر پتھر رکھ کر تمام آدابِ تکلم و تخاطب ملحوظ رکھ کر جواب دیتا ہوں، تو ووٹر کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا اس بیچارے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہیں ہوتا ہوگا؟ وہ نہیں کہہ رہا کہ جا کر کسی جرنیل کے گریبان کو ہاتھ ڈال دو۔ لیکن عمران خان کو تو بے نقط سنائی جا سکتی ہیں۔ اسے وہ شہباز شریف یاد نہیں آتا ہوگا جو کہتا تھا زر بابا اور چالیس چوروں کے پیٹ سے پیسے نکالے گا؟ وہ شہباز شریف راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل، چینی سکینڈل، دوائیاں سکینڈل، ایل این جی سکینڈل، آئی پی پی سکینڈل پر کسی کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیوں نہیں کر رہا؟ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی شہباز شریف کی اس طرح کی خوش آمدانہ پالیسی سے ہرگز خوش نہیں ہیں۔ بلکہ حال ہی شاہد خاقان عباسی نے ایک بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ ن لیگ کو ووٹ اس کے بیانیے کی وجہ سے ملے ہیں اور اگر وہ اپنا بیانیہ بدلتی ہے تو اگلے انتخابات میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے مزید کہ ’مفاہمت اس سے نہیں ہوتی جو الیکشن چوری کرے اور آئین توڑے۔ مفاہمت کبھی یکطرفہ بھی نہیں ہوتی۔‘ ’ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ چاہتے ہیں کہ اداروں کی عزت رہے اور وہ آئین کے مطابق اپنی حدود میں رہیں۔ چاہتے ہیں کہ ملک کا نظام آئین کے مطابق چلے۔‘ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہبازشریف پرانے سیاستدان ہیں۔ آئین کو توڑنا قبول نہیں کرسکتے اس بیانیے میں کوئی اختلاف نہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز اس حوالے سے شہباز شریف کی نسبت درست ہیں کہ وہ کم ازم کم عمران خان کے حوالے سے کوئی بھی نرم رویہ اختیار کرنے کے قائل نہیں ہیں اور یہ بات درست بھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کے نیچے دبی عوام ن لیگ کی طرف دیکھ رہی ہے اور ایسے میں اگر شہباز شریف یہ کہیں کہ وہ دل پر پتھر رکھ کر عمران خان کے لیے آداب ملحوظ رکھتے ہیں تو پھر ان ووٹرز کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟
عوام تو سوال کریں گے کہ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہے۔ بولتا کیوں نہیں؟ عمران خان کو احترام سے کیوں بلاتا ہے؟ مینارِ پاکستان کے باہر کیمپ لگا کر کیوں نہیں بیٹھتا کہ جب تک میری قوم کے لوگ اس گرمی میں سونے جتنی مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں، میں بھی یہیں بیٹھا ہوں؟ ن لیگی ووٹر یہ سوال کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑو۔ وہ آپ کی بات مان لے گا کہ اگر لڑے تو 80 فیصد لوگ پارٹی چھوڑ جائیں گے۔ لیکن کیا عمران خان پر تنقید سے بھی 80 فیصد لوگ پارٹی چھوڑ جائیں گے؟ وہ کہتا ہے چھوڑتے ہیں تو چھوڑ جائیں، ہماری بات تو کرو، ہم نے تمہیں 1 کروڑ 28 لاکھ ووٹ دے کر ایوان میں بھیجا ہے۔ ان دو ٹکے کے لوٹوں کے ہاتھوں بلیک میل ہی ہونا ہے تو ہم ووٹ کیوں دیں؟ مت مانگو اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے ووٹ کی عزت، خود تو عزت دو!