پاکستان کے صوبے سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ڈہرکی اسٹیشن کے قریب ٹرین حادثے کے نتیجے میں 30 مسافر ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ پیر کی علی الصباح کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی چار بوگیاں گھوٹکی کی تحصیل اوباوڑو کے مقام پر پٹری سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر گر گئیں جس کے بعد پنجاب سے آنے والی سرسید ایکسپریس متاثرہ ٹرین کی ڈاؤن ٹریک پر موجود بوگیوں سے جا ٹکرائی اور اس کی بھی تین بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ یہ اس ٹریک پر ترین ماہ کے دوران دوسرا بڑا حادثہ ہے اور اب تک اس روٹ پر بڑے حادثوں کی تعداد ایک درجن سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ ہلاکتوں کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کر چکی ہے مگر حکام بالا کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ سکھر ڈویژن میں مین لائن کا تمام ٹریک اپنی مدت مکمل کرچکا ہے ، اسکے باوجود اسے تبدیل نہیں کیا جارہا ہے جبکہ ریلوے حکام نے اس ٹریک کو تبدیل کرنے کے حوالے سے اسے “ سی پیک “ کے ساتھ مشروط کیا ہوا ہے لیکن حادثات بڑھتے جارہے ہیں۔ 7 مارچ کو بھی سکھر ڈویژن میں ٹریک کھل گیا تھا اور کراچی ایکسپریس کی پانچ بوگیاں پٹری سے نیچے اتر گئی تھیں جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 2 مسافر جاں بحق ہوئے جبکہ متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
موجودہ دور حکومت میں محکمہ ریلوے میں ٹرینوں کے حادثات میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا۔ ریلوے اعداد وشمار کے مطابق 2018 سے مارچ 2021 تک ٹرینوں کے کل 434 حادثے ہوئے۔ ٹرین حادثات کے باعث ریلوے کا امیج خراب ہونے سے آمدنی میں بھی ریکارڈ کمی آئی، محکمہ ریلوے رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں آمدنی کا حکومتی ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا۔ محکمہ ریلوے کو پہلے 7 ماہ میں آمدنی کی مد میں 14 ارب 54 کروڑ 98 لاکھ 89 ہزار روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ 2015 کو گوجرانوالہ ور 2016 میں کراچی کے علاقے لانڈھی میں ہونے والے ٹرین حادثات کے بعد عمران خان چونکہ اپوزیشن رہنما تھے تو اس وقت انہوں نے کنٹینر پر چیخ چیخ کر کہا تھا کہ اگر یہ مغربی دنیا ہوتی تو کب کے وزیر اعظم اور وزیر ریلوے مستعفی ہوچکے ہوتے مگر نواز شریف کی حکومت بے غیرت ہے۔ اگر مندرجہ بالا اعدادو شمار پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوگا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں 434 حادثات ہوچکے ہیں مگر نہ تو کسی وزیر اعظم نے استعفی دیا ہے اور نہ ہی کسی وزیر ریلوے نے۔
بجائے اس کے کہ موجودہ حکومت اپنی ذمہ داری کو قبول کرتی ، وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انوکھی منطق پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیر ریلوے سعد رفیق کے گناہ پر اعظم سواتی استعفیٰ دے دیں؟انہوں نے کہا کہ وزیر خامیوں کی نشاندہی کر کے ان کا حل بتاتا ہے جب ان پر عملدرآمد ہوجائے اور پھر بھی حادثہ ہو تو وہ ذمہ دار ہوگا۔ فواد چوہدری صاحب کی بات سن کر یوں لگتا ہے کہ جیسے تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی ہفتہ ہوا ہے اور ابھی تک ان کے وزیر ریلوے ، ریلوے کی خامیوں کو نہیں سمجھ پائے اور ان کو وہی وطیرہ ہے کہ ہرکام کے لیے سابق حکمرانوں کو لعن طعن کریں۔ پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ تین برسوں میں سابقہ حکمرانوں کو لعن طعن کر کے ہی حکومت چلائی ہے اور آگے بھی اسی طرح حکومت چلانے کا ارادہ ہے۔ فواد چوہدری صاحب یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ ان کے دورے میں ریلوے کے خسارے میں کتنا اضافہ ہوا اور کتنی نئے ٹریکس بچھائے گئے؟ کتنی نئی ٹرینیں چلائی گئیں مگر بجائے اس کہ وہ اس پر اپنی کارکردگی کی بات کرتے انہوں نے اس کا ملبہ بھی سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر آسان کام کیا۔
ماہرین کے مطابق ہردورمیں ریلوے میں انقلابی اقدامات کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن نظام جوں کاتوں ہے نئی ٹرینیں چلانے کی بجائے نظام میں بہتری ناگزیر ہے۔ ان حادثات میں قیمتی جانوں کا ضیاع تو ہوتا ہی ہے مگر مالی طورپر بدحال محکمہ مزید نقصان سے دوچار ہو رہا ہے۔ ریلوے کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر خسارہ 27 سے 32 ارب روپے پر برقرار ہے جو گزشتہ پچیس سال سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ دور حاضر میں وفاقی حکومت کی جانب سے ہر سال 38 سے 42 ارب روپے سالانہ بیل آؤٹ پیکج سے ریل کو پٹری پر رکھنے کا مصنوعی طریقہ اپنایا گیا ہے۔ اسکے باوجود نظام بہتری کی طرف بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔گزشتہ بیس پچیس سال سے ریلوے کو غیر سنجیدہ اور سیاسی انداز سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر ریلوے وزیر اپنے من پسند افسران کو قابلیت نہ ہونے کے باوجود اعلی عہدوں پر فائز کرکے کام چلانے کی کوشش کرتاہے۔ انہوں نے کہا ریلوے ٹریک مکمل طور پر بوسیدہ ہوچکا ہے، سگنلنگ سسٹم بھی مکمل کام نہیں کر پا رہا۔
عالمی سطح پر ریلوے کو ایک مکمل نظام کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور اس پر ریسرچ کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان ریلوے میں ہر بار حادثہ ہونے پر نظام میں تحقیقات کے بعد نشاندہی کر کے خامیاں دور کرنے کی بجائے کسی چھوٹے ملازم کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیکر اگلے حادثے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ ریلوے حادثات کی تحقیقات کے لئے تعینات فیڈرل انسپکٹر جنرل فار ریلوے گزشتہ بیس سال سے سول انجئینرنگ کے شعبے سے لگایا جاتا ہے جو مکینکل اور سگنل کا ماہر نہیں ہوتا لہذا ہر بار سول ڈھانچے کی خامیوں کو نظر انداز کر کے روایتی طور پر تحقیقات کی جاتی ہے۔ اگر ٹریک اور سگنلنگ کا نظام بوسیدہ ہے تو اسکی بہتری کے لئے فنڈز جاری کس نے کرنا تھے؟ اگر جاری ہوئے تو رکاوٹ کون بنا؟ یہ مسائل کبھی بیان نہیں ہوئے۔ کام چلاؤ طریقہ اس محکمہ کی بربادی کا موجب ہے۔ ریلوے افسر نے بتایا کہ ٹرین ڈرائیور، گینگ مین، کانٹا بدلنے والے اورلائن پر کام کرنے والے چھوٹے ملازمین کی محکمے میں شدید کمی ہے۔ آٹھ کی بجائے بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے والے ملازم سے دباؤ میں غلطی فطری ہے۔
فواد چوہدری صاحب نے تو سارا بوجھ سعد رفیق کے کھاتے میں ڈال کر خود کو اور اپنے وزیر ریلوے کو گناہوں کے بوجھ سے آزاد کرا لیا ہے مگر اس حکومت کے جانے کے بعد یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ آپ نے ریلوے کی بحالی کے لیے کیا کیا ہے؟ تین برسوں میں ریلوے کی حالت میں کیا تبدیلی آئی ہے؟