وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی کہانی تم نے بگاڑی اور مجھے اپوزیشن بینچوں سے پاکستان کی نہیں، ہندوستانی بولیاں سنائی دے رہی ہیں۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں فردوس عاشق اعوان اور قادر خان مندوخیل کے درمیان ہاتھا پائی کے معاملے پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اپوزیشن نے عالمی عدالت انصاف نظرثانی بل پر شدید احتجاج کیا۔
ایوان میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو موثر بنانے کے لیے نظر ثانی کا بل آرڈیننس 2020 منظور کرلیا گیا،بل فروغ نسیم کی جانب سے پیش کیا گیا۔
اس بل کی منظوری کے بعد اب تمام بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سمیت غیر ملکیوں کو فوجی عدالتوں کی سزا کے خلاف اپیل کا حق مل جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل بھارت کے عزائم کے خلاف لائے ہیں، کلبھوشن کو قونصلر رسائی مسلم لیگ(ن) کے دور میں نہیں دی گئی اور اگر ہم یہ قانون نہ لاتے تو بھارت سلامتی کونسل میں چلا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف نے واضح طور پر اپیل کا قانون لانے کا حکم دیا تھا اور اگر ہم یہ بل نہ لاتے تو بھارت ہمارے خلاف عالمی عدالت کی توہین کا مقدمہ درج کرواتا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن کا حق ہے کہ ان کی رائے بھی لی جائے، میں آپ پر تنقید نہیں بلکہ اپیل کررہا ہوں کہ آپ اپنا طاقت استعمال کریں کہ رولز کو منسوخ نہیں کریں گے، اگر ہنگامی مسئلہ ہو، قومی سانحہ ہے اور ہمیں کچھ فوری طور پر کرنا ہے تو ہم ضرور کرنے کو تیار ہوں گے لیکن آپ اپنی ذمے داری نبھائیں، فورم کو صحیح طریقے سے استعمال کریں، کمیٹیز کو بھی صحیح طریقے سے چلائیں تاکہ ہم عوام کے مسائل حل کر سکیں اور عوام کے لیے زیادہ مصیبت پیدا نہ کریں۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یقیناً عوامی جماعتیں ہیں اور عوام کو ریلیف دینے آئے ہیں لیکن اگر عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہم گنجائش پیدا کرنا چاہتے ہیں تو مجھے امید ہے کہ آپ اس میں رخنہ اندازی نہیں کریں گے فراخ دلی سے آگے بڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ اراکین پارلیمنٹ نے رولز کا حوالہ دیتے ہوئے رولز میں گنجائش نہیں ہے اور آپ رولز کی نفی کر کے کارروائی بڑھا رہے ہیں، وزیر پارلیمانی اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور نے اس کا مفصل جواب دے دیا ہے کہ رولز میں گنجائش ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزرا نے اس کارروائی کی وجوہات بتائیں کہ ہماری خواہش ہے کہ اس وقت جو قوانین لے کر آئے ہیں ان پر قانون سازی ہو جائے، کیونکہ کل بجٹ ہے، اجلاس ہونا ہے اور اس میں بہت سے ایسے قوانین ہیں جن کا مقصد براہ راست عوام کو ریلیف پہنچانا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فاضل رکن اسمبلی نے کہا کہ بل پر بحث ہونی چاہیے، بالکل ہونی چاہیے لیکن اس حوالے سے دو گنجائشیں ہیں، ایک بل جب مرتب ہوتا ہے تو ایوان میں متعارف کرایا جاتا ہے اور قائمہ کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے جہاں اپوزیشن کی نمائندگی موجود ہے، تصور یہ کیا جاتا ہے کہ ہر جماعت کا رکن اپنی جماعت کا نقطہ نطر قائنہ کمیٹی میں لائے گا، اپنا مؤقف پیش کرے گا اور اپنی رائے ریکارڈ کرائے گا، اگر قائمہ کمیٹی میں اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی تو اس حوالے سے خط لکھ کر آگاہ کرے گا لیکن بل کو اکثریت سے ایوان میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ آ سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب بل پیش کیا جات ہے اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو قانون کے مطابق وہ رکن ترامیم پیش کر سکتا ہے، ترامیم کو آپ ایوان کے سامنے رکھ سکتے ہیں، جو معترض ہوتا ہے ، اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ ترمیم پر اپنی رائے کا اظہار کرے اور جمہوریت یہ کہتی ہے کہ اکثریت کی بات کو ترجیح دی جاتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ جمہوریت کی نفی ہو گی۔
انہوں نے بلاول کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ رکن اسمبلی نے درست کہا کہ مشاورت اور بات چیت کا موقع ملنا چاہیے، آپ نے انتخابی اصلاحات کا حوالہ دیا جن کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے اور تب ہی ہم نے کہا تھا کہ انتخابی اصلاحات پر بائیکاٹ مت کیجیے، ہم نے آپ کو بارہا دعوت دی لیکن آپ آنے کو تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم دعوت دیتے ہیں تو آپ آنے کو تیار نہیں ہیں، جب ہم قائمہ کمیٹی میں جاتے ہیں تو آپ اپنا نقطہ نظر ریکارڈ نہیں کراتے، جب ہم اسمبلی میں آتے ہیں تو آپ بات کرنے کی گنجائش نہیں نکالتے، جب ہم اکثریت پوری کرتے ہیں تو آپ واک کر جاتے ہیں، یہ جمہوریت کی روح کی نفی کررہے ہیں۔
وزیر خارجہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن خصوصاً پیپلز پارٹی کے اراکین نے احتجاج کرنا شروع کردیا اور متعدد مرتبہ تقریر میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ آپ الیکٹرانک ووٹنگ کی بات کررہے ہیں، اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں اور ہم آپ کے نقطہ نطر کا احترام کرتے ہیں لیکن جو ہم کررہے ہیں وہ انہونی نہیں، ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں الیکٹرانک ووٹنگ کئی سالوں سے رائج ہے، امریکا سمیت کئی ممالک میں رائج ہے، کیا وہاں جمہوریت نہیں ہے، کیا وہاں جمہوری اقدار نہیں ہیں، کیا ان کے الیکشن دنیا تسلیم نہیں کرتی؟، کرتی ہے، اگر وہاں کرتی ہے تو یہاں مضائقہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں پر مجھے اور حکومتی نشستوں پر بیٹھے اراکین کو فخر ہے، وہ اس ملک میں ترسیل کرتے ہیں اور ایک طبقہ ایسا ہے جو اس ملک کو لوٹ کر پیسہ باہر بھیجتا ہے اور اوورسیز پاکستانی وہ طبقہ ہے جو پیسہ کما کر ملک میں بھیجتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر ہم ان اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیتے ہیں، پاکستان کی قانون سازی اور معاملات میں ان کو اسٹیک ہولڈر بنانا چاہتے ہیں، آج یفیت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی برآمدات سے زیادہ پیسے بھیج رہے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ آپ اوورسیز پاکستانیوں کے علمبردار ہیں لیکن ان کے گلے کو دبوچنا چاہتے ہیں، ان کا حق سلب کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گواہ رہنا، تاریخ رقم ہو رہی ہے، ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ان کا حق دے رہے ہیں اور یہ اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کا قتل کررہے ہیں، یہ ان کے حقوق کے قاتل ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن یادیو کی کہانی ہم نے نہیں، تم نے بگاڑی، ہم تو پاکستان کے وقار کی بات کرتے ہیں لیکن ہندوستان عالمی عدالت انصاف میں جا کر یہ کہنا چاہتا ہے کہ پاکستان نے عالمی عدالت کی سارشات پر عملدرآمد نہیں کیا اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم انہیں قونصلر تک رسائی دینا چاہتے ہیں.
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ مجھے اپوزیشن بینچوں سے پاکستان کی نہیں، ہندوستان بولیاں سنائی دے رہی ہیں، یہ آج ہندوستان کی بولی بول رہے ہیں۔