تقوٰی کیا ہے؟ تقوی دنیاوی اور اخروی زندگی میں ہماری درست منزل ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے” بے شک پرہیزگاروں کے لیے کامیابی ہے۔ ( القرآن 31: 78) ۔
اسی طرح فرمایا کیوں کہ وہ اللہ کے سامنے آپ کے کچھ بھی کام نہ آئیں گے، اور بے شک ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور اللہ ہی پرہیزگاروں کا دوست ہے۔(القرآن : 19: 45)۔
تقوی کا مطلب ہے کہ آپ ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہیں۔ تقوی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اس لی نیک اعمال کریں کہ ہمیں اس کا انعام ملے گا یا پھر سزا کے خوف سے بلکہ تقوی کا مطلب ہے ہر عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے کرنا۔
نہ صرف اس دنیابلکہ آخرت میں بھی تقوی سچائی اورراست بازی کا رستہ ہے۔ آخرت کے مقصد کو مدنظر رکھ کر اگر ہم تقوی کے مطابق زندگی گزاریں تو درحقیقت ہم سنت کے تابع ہوجائیں گے اور یہی انسان کی حقیقی فطرت ہے اور اندرونی سکون کا ذریعہ ہے۔ بعض مذہبی سکالر اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اور دوزخ نہ صرف وجودی جگہیں ہیں بلکہ ہماری روحانی اور جذباتی حالت کا استعارہ ہے۔ تقوی یقینا ہماری منزل ہے اور اس منز ل کے حصول کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کون سے ایسے اقدامات ہیں جن کی بدولت ہم تقوی کے رستے کو اختیار کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔
1. شکر گزاری
ارشاد باری تعالی ہے” اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔ (’القرآن 14:7).
اس کا کیا مطلب ہے کہ اللہ تمہیں اور دے گا؟ یہ بات بہت واضح ہے کہ جب ہم اللہ کے شکر گزار بندے بنیں گے تو اللہ ہمیں اس شکرگزاری کے عوض اور زیادہ دے گا۔یہ پہلو ایک نفسیاتی حقیقت کا اظہار ہے کہ اگر ہمارے پاس جو ہے اور جب ہے ہم اس پر شکر گزار رہیں تو ہمیں لگے گا کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ حتی کہ آپ خود کو دولتمند سمجھنے لگیں گے۔ دن کے کسی بھی لمحے ہمارے پاس بہت ساری وجوہات ہیں کہ ہم اللہ کا شکر ادا کریں جیسا کہ حرارت کی نعمت، کپڑے، دیکھنے کو آنخھیں اور دیگر بہت ساری چیزیں جن سے ہمیں اللہ نے نواز رکھا ہے۔شکر گزاری نہ صرف ہماری اپنی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ اللہ کے قریب کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔
بسا اوقات ہمیں اس چیز پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ یقینا خواہشات کا پورا نہ ہونا ہمیں مضطرب کر دیتا ہے تاہم اگر ہم دوسری جانب اس بات پر غور کریں کہ ہمارے پاس کیا کیا نعمتیں موجود ہیں تو یقینا یہ اداسی دور ہو جائے گی اور ہم اللہ کےشکر گزار بندے بن جائیں گے۔تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو مسلسل شکر کرتے زیادہ خوش، زیادہ پر امید اور اپنی زندگی کو دوسروں کی نسبت بہتر محسوس کرتے ہیں۔ شکر گزاری ایک وسیع اصطلاح ہے جس کا اظہار کئی طرح سے ہوسکتا ہے۔سونے سے قبل ہم ایسی چیزوں کی فہرست مرتب کر سکتے ہیں جن کے لیے ہم شکر گزار ہیں ۔ہم اپنی عبادات کا آغاز بھی اللہ کے شکر سے کر سکتے پیں اس سے ہم ایک اچھے ذہن کے ساتھ عبادات کا آغاز کر سکتے ہیں۔
عبادات کے علاوہ ہم مراقبے اور ذکر میں بھی وقت صرف کر سکتے ہیں۔ اور اس کاسب اچھا طریقہ الحمد ولللہ کا ہر اس موقع پر ورد ہے جس کے لیے ہم شکرگزار ہیں۔ اس طرح کا ذکر آسان ہے عبادت کے بعد یا چلتے پھرتے کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد موجود لوگوں کا بھی ان کی مدد، محفل اور ساتھ دینے کے لیے شکر گزار ہونا چاپیے۔ اس حوالے سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے۔ وہ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ امید ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اللہ کی نعمتوں کے لیے شکر ادا کرے گا۔
روزانہ کی بنیاد پر لی جانے والی اسلامی کلاسز ایک اچھا فعل ہے۔ کیونکہ سیکھنے کے مسلسل عمل سے ہی ہم اپنے لیے اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کے لیے سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک اچھی کلاس اور کتاب نہ صرف ہماری معلومات میں اضافہ کرتی بلکہ دین اسلام کے قوانین کے متعلق ہمیں آگاہ کرتی ہے۔ آج کل انٹرنیٹ بھی سیکھنے کے عمل کا ایک بہترین ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم بہت ساری تنظیموں کی آن لائن لائبریزیز اور مواد تک رسائی حاصل کر کے اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اس کی دو اہم مثال سیکر گائیڈینس اور القلم انسٹیٹیوت ہیں جو کہ مفت میں بہترین آن لائن مواد فراہم کرتی ہیں۔ اگر ہم نئے مواد کے مطالعے سے قاصر ہیں تو کم از کم ہم نے جو کچھ سیکھ رکھا ہے اسے ہی روزانہ دوہرا لیں۔ یہ تمام چیزیں کتب، مضامین، اسلامی بات چیت، پوڈکاسٹ، یا جمعے کے خطبے کی صورت میں ہوسکتی ہیں۔
یاددہانی ہماری زندگیوں میں مثبت پیغام کو مضبوط کرتی ہیں ۔ بعض اوقات ہم ایک اہم حدیث سن لیتے ہیں یا کوئی اس طرح کا اہم پیغام سن لیتے ہیں تاہم ہم ان کے بنیادی پیغام اور مقصد کو بھول جاتے ہیں ۔ باربار چیزوں کی دہرائی سے یہ اہم باتیں ہمیں مستقل طور پر یاد ہوجاتی ہیں بار بار یاددہانی سے ہم اپنی یادداشت کو بہتر بناسکتے ہیں اس لیے جب ہم روزمرہ زندگی میں کسی امتحان سے گزرتے ہیں یا ہمیں کوئی نعمت عطا ہوتی ہے تو ہم سبق کا یاد رکھتے ہیں اور اللہ کا درست انداز میں شکر ادا کرتے ہیں۔ نعمتوں کے وقت ہم اس کے شکرگزار بندے بنتے ہیں اور مشکل کے وقت ہم صابر بنتے ہیں اور اللہ کی مدد طلب کرتے ہیں۔
3۔ اچھی محفل
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ : ایک اچھے دوست کی مثال جس کے ساتھ آپ اٹھتے بیٹھتے ہیں ایسے ہی ہے جیسے کوئی خوشبو بیچنے والا ہو جب کہ ایک برے دوست کی محفل کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئلے کی دھونکنی ولا جو نہ صرف تمہارے جسم کو بلکہ کپڑوں کو بھی جلا دیتا ہے یا پھر تم سے بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے” ۔
ہم میں سے ہر ایک کے اوسط پانچ دوست ہوتے ہیں ، اور اگر ہمارے اردگرد ہماری محفل اچھے لوگوں سے ہو جو کہ صورتحال کو مثبت تناظر میں دیکھنے کے عادی ہوں، ہمیں وقت پر عبادات کی یاددہانی کراتے ہوں، مستقل زکرو اذکار کرتے ہوں اور اپنی باتوں اور عمل سے ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے ہوں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی محفل میں ہمارے اندر بھی یہی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح اگر ہمارے دوست روحانی طور پر بھی ہمارے جیسے ہوں اور ایک جیسے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہوں ، یعنی اللہ کے قرب کے خواہاں ہو اور معاشرے میں اچھائی پھیلانا چاہتے ہوں ۔ تو اس صورت میں ہم اور بھی زیادہ آسانی سے اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ جب کہ بری محفلوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی منزل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
4۔ نیک اور اچھے خیالات
بلاشبہ جس طرح کی ہماری محفل ہوتی ہے ایسے ہی ہمارے ذہن کی نشونما ہوتی ہے ۔ اگر ہم روز مرہ زندگی میں ہر چیز کے مثبت پہلووں کو تلاش کرنا شروع کر دیں تو یہ ہماری فطرت ثانیہ بن جائے گی۔ اکثر اوقات یہ ہمارے لیے بہت بہتر ثابت ہوتا ہے کہ اہم اپنے بنیادی عقائد، اقدار اور طرز زندگی کی تفتیش شروع کر دیتے ہیں۔ اس بات پر غور کرنا کہ کیا چیز ہماری ذہنی رو کو چلاتی ہے اور کس طرح ہم اللہ کا شکر اداکرسکتے ہیں بہت ہی اہم ہے۔ مثال کے طور جب ہم کسی اچھے ریسٹورنٹ پر کھانا کھاتے ہیں تو ہمارے اندر باورچی والی ذہنیت اجاگر ہوجاتی ہے۔ کھانے پر تنیقد کے علاوہ ہم کھانے کا صحیح طرح سے معائنہ کرتے ہیں کہ اس کی تکمیل میں کیا کیا خامیاں رہ گئی ہیں اور جب کوئی چیز ہماری توقعات پر پوری نہیں اترتی تو ہم اس پر تننقید کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جس میں خوراک کی بہتات ہے تاہم اگر ہم چیزوں کو مثبت انداز میں دیکھنا شروع کر دیں تو ہم اس کھانے پر اللہ کے شکرگزار ہوں گے۔ اس بات کے شکر گزار کے اس نے ہمیں آج کھانا عطا کیا جبکہ دنیا میں اس وقت کئی لوگ بھوکے ہوں گے۔ جس طرح ہمارے اجسام کی پروش خورا ک کی وجہ سے ہے ویسے ہی ہمارے اذہان اور سوچوں کی خوراک معلومات ہیں۔ اور ہمارے ذہنوں کو یہ خوراک ویسے ہی ملے گی جیسی ہماری محفل ہوگی، جیسی ہم کتب کا مطالعہ کریں گے یا جیسی فلمیں یا ڈرامے دیکھیں گے۔
5۔ نیک ارادے
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر کس کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا”۔ پس اپنے خیالات کے علاوہ ہم کسی بھی کام سے قبل اپنی نیت کا تعین کر لیں۔ اپنی نیت کو واضح کرکے ہم اپنی سوچوں کو واضح کر کے اپنے مقصد پر مکمل دھیان دے سکتے ہیں یعنی اللہ پاک کو بھی راضی کر سکتے ہیں اور اطمینان قلب بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ پس کسی بھی کام سے قبل ہمیں بسم اللہ پڑھنے کے لیے محض دو سیکنڈ کا وقت درکار ہوتا ہے لیکن ہم اکثر یہ دو سکینڈ بھول جاتے ہیں ۔ ایک سکالر کے مطابق مسلمانوں کے مسائل کی بڑی وجہ یہ نہیں کہ ان کی نیتیں صاف نہیں بلکہ یہ ہے کہ ان کی کوئی نیت یا ارادہ سرے سے ہے ہی نہیں۔
زندگی کے بہت سارے کاموں میں ہم آٹو پائلٹ کی طرح ہوتے ہیں ، ہم سوجاتے ہیں کیونکہ ہمیں نیند آئی ہوتی ہے یا رات بہت گزر چکی ہوتی ہے۔ مگر سوچیں کہ سونے سے قبل اس بات پر کتنا وقت لگتا ہے کہ آپ صرف ذہن میں یہ بات دہرا لیں کہ مجھے فجر کی نماز کے وقت اٹھنا ہے۔ اس طرح اگر انسان نیت کر لے تو اس کا کس قدر اجرو ثواب ہے۔ پس تقوٰی کے حصول کے لیے ہمیں غور وفکرکرنے کی ضرورت ہے۔ ان شا اللہ اللہ ہماری حامی و مددگار ہوگا۔