مفتی عزیز الرحمان نے دوران تفتیش طالبعلم سے جنسی زیادتی کا اعتراف کر لیا ہے۔ مفتی نے تفتیش میں انکشاف کیا ہے کہ ویڈیو میری ہی ہے جو صابر شاہ نے چھپ کر بنائی۔ مفتی عزیز نے ابتدائی بیان میں کہا ہے کہ طالب علم صابر کو پاس کرنے کا جھانسہ دے کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ مفتی عزیزالرحمان نے مزید کہا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میں خوف اور پریشانی کا شکار ہو گیا تھا۔ چنانچہ میرے بیٹوں نے صابر شاہ کو دھمکایا اور اسے کسی سے بات کرنے سے روکا۔ تاہم صابر شاہ نے منع کرنے کے باوجود ویڈیو وائرل کر دی۔ مفتی عزیز الرحمان نے کہا ہے کہ میں مدرسہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اس لیے وضاحتی ویڈیو بیان جاری کیا۔ اس دوران مدرسے کے منتظمین مجھے مدرسہ چھوڑنے کا کہہ چکے تھے۔ ملزم کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد ٹاؤن شپ، شیخوپورہ اور فیصل آباد میں شاگردوں کے پاس ٹھہرتا رہا، میری اور بیٹوں کی فون لوکیشن ٹریس ہوتی رہی، اس دوران میانوالی میں چھپا ہوا تھا کہ پولیس نے گرفتار کرلیا۔
انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب انعام غنی نے ایک ٹویٹ میں اس معاملہ کو ٹیسٹ کیس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم اس معاملے کی سائنٹیفک پیشہ وارانہ تحقیقات کریں گے اور ملزم کے خلاف مقدمہ قائم کر کے عدالت سے اسے سزا دلوائیں گے۔ ہم اپنے بچوں کو ایسے جنسی درندوں سے بچانا چاہتے ہیں اور مستقبل میں معاشرے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں‘ ۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے پولیس سربراہ کا یہ بیان اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کو سنجیدگی سے لینے اور ایسے جرائم میں ملوث ہونے والے افراد کو ان کے سماجی رتبہ سے قطع نظر قانون کے مطابق سزا دلوانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
تاہم اس کے ساتھ ہی آئی جی پولیس کے بیان کے حوالے سے یہ بات بھی نوٹ کی جا سکتی ہے کہ پولیس نے اس کارروائی کا آغاز سوشل میڈیا پر یکے بعد دیگرے متعدد ویڈیو عام ہونے اور ملزم کی طرف سے ’وضاحتی ویڈیو‘ جاری ہونے کے کئی روز بعد کیا تھا۔ جرم پتہ لگتے ہی پولیس فوری طور سے ایکشن میں نہیں آئی تھی۔ اسی طرح انعام غنی کے ٹویٹ کے اس پہلو سے بھی مکمل اتفاق ممکن نہیں کہ کسی ایک معاملہ میں ملوث ایک شخص کو سزا دلوانے سے اس قوم کے بچے محفوظ ہوجائیں گے یا معاشرہ کی تطہیر کا فرض پورا کر لیا جائے گا۔
کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ اور دیگر افراد کی لاتعلقی کے علاوہ اس معاملہ میں ملک کے دینی رہنماؤں کی خاموشی اور بے اعتنائی بھی تکلیف دہ امر ہے۔ خاص طور سے اس حقیقت کی روشنی میں کہ ملزم عزیز الرحمان سیاسی طور سے بھی متحرک تھا اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کا عہدے دار بھی رہا ہے۔ معاملہ کھلنے پر اگرچہ جمیعت علمائے اسلام (ف) لاہور کے سیکرٹری جنرل نے ضرور عزیز الرحمان کی پارٹی رکنیت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہہ کر کہ ’تحقیقات مکمل ہونے تک رکنیت معطل رہے گی‘ اسے معاف کرنے کا دروازہ بھی کھلا رکھا گیا ہے۔ بلکہ بیان سے یہی تاثر ملتا ہے جیسے عزیز الرحمان کی بے گناہی کا ثبوت بھی سامنے آ سکتا ہے۔ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہے کہ جرم ثابت ہونے تک کسی کو قصور وار قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن ملک میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی داعی جے یو آئی کو اس معاملہ کے سیاسی اور سماجی پہلو کا بھی اندازہ ہونا چاہیے تھا۔
دوسری جانب پاکستان میں معاشرتی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ اس واقعے کے خلاف نہ تو کہیں احتجاج ہوا ہے اور نہ ہی کہیں جلوس نکلا ہے۔ چونکہ معاملہ ستر برس کے باریش مفتی صاحب کا ہے اس لیے سب کی زبانوں پر آبلے پڑ گئے ہیں، یکایک ہمارے دوستوں کے قلم کی سیاہی بھی خشک ہو گئی ہے، وہ مذہبی رہنما جو چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی ہماری گوشمالی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اب یوں خاموش ہو گئے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، اب کہیں سے یہ تاویل بھی نہیں آ رہی کہ اگلے روز آنے والا زلزلہ دراصل اس مکروہ گناہ کا نتیجہ تھا اور تو اور اب کسی کو سورۃ لوط کی آیات بھی یاد نہیں آ رہیں۔۔ اگر اس قسم کا واقعہ کسی با پردہ لڑکی کے ساتھ مغربی طرز کے کسی کالج میں پیش آیا ہوتا اور ملزم کلین شیو ہوتا تو اب تک ’انصاف‘ ہو چکا ہوتا۔ مگر یہاں حال یہ ہے کہ مفتی صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پر ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں وہ بدکاری کی توجیہہ دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ’اس فعل کے دوران کوئی جبر نہیں ہے اور یہ (لڑکا) آزادانہ اپنا ویڈیو خود بنا رہا ہے‘ ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جب بھی اس قسم کا معاملہ سامنے آتا ہے تو مذہبی جھکاؤ رکھنے والے ہمارے دوستوں کی جانب سے فوراً کچھ تاویلات سامنے آ جاتی ہیں جو کچھ اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ’ہم نے تو واقعے کی مذمت کر دی ہے، پولیس نے ایف آئی آر کاٹ دی ہے، اب قانون اپنا راستہ لے گا، ہم کب اس کا دفاع کر رہے ہیں، عدالت سے ملزم کو سزا مل جائے گی لہذا اس ایک واقعے کی آڑ میں مدرسوں کو بدنام نہ کیا جائے، اس سے کہیں زیادہ گھناؤنے واقعات مغرب میں ہوتے ہیں۔‘ وغیرہ۔ جب ایسا کوئی پرتشدد واقعہ ہوتا ہے تو پھر ہم محض یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتے کہ یہ بات قابل مذمت ہے تاوقتیکہ ہمارے قلم سے اسی طرح پھنکارتے ہوئے الفاظ نہ نکلیں جیسے شدت پسندانہ بیانیہ تشکیل کرتے وقت نکلتے تھے۔ یہ دلیل درست ہے کہ محض چند واقعات کی آڑ میں مدرسوں میں کو بدنام نہیں کیا جانا چاہیے مگر پھر یہی رعایت جدید اسکولوں کو بھی ملنی چاہیے، اس وقت تو ہم سب مغرب زدہ کہہ کر ان تعلیمی اداروں پر پل پڑتے ہیں جب ایسا کوئی واقعہ وہاں رپورٹ ہوتا ہے۔
معذرت کے ساتھ، ان تاویلات میں کوئی دم نہیں۔ یہ کہنا کہ ہم کب اس واقعے کا دفاع کر رہے ہیں یا ہم اس کی مذمت کر چکے ہیں، کافی نہیں۔ اگر کوئی اس واقعے کی مذمت نہیں کرے گا تو کیا اس کا دفاع کرے گا؟ یہ تو ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ایف آئی آر کٹ چکی اور قانون اپنا راستہ لے گا مگر کیا یہی روش ہم دیگر معاملات میں بھی اپناتے ہیں؟ باقی معاملات میں تو ہم خود قانون ہاتھ میں لے کر بندے کو ’کیفر کردار‘ تک پہنچاتے ہیں، شہر کا شہر مفلوج کر دیتے ہیں، پولیس کے جوان شہید کر دیتے ہیں، اقلیتوں کی بستیوں کو آگ لگا دیتے ہیں، اب قانون کا سبق کیوں یاد آ گیا؟ لیکن چلیے اچھی بات ہے، امید ہے کہ آئندہ باقی معاملات میں بھی یہ سبق یاد رہے گا۔
مفتی عزیز الرحمان کے معاملہ میں تفتیش کے دوران پولیس کو اس پہلو پر غور کرتے ہوئے ان تمام افراد کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے جو مختلف مراحل پر اس جرم سے آگاہ تھے لیکن اس کے بارے میں پولیس کو شکایت کرنے اور معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ مدرسہ میں تعلیم پانے والے ان تمام طالب علموں سے بھی استفسار کرنے کی ضرورت ہے جو عزیز الرحمان سے تعلیم پاتے رہے تھے۔ جنسی جرم کے عادی شخص کے ہاتھ کسی بھی معصوم تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس معاملہ میں بھی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کیا صرف ایک نوجوان ہی عزیز الرحمان کی زیادتی کا نشانہ بنا تھا یا کچھ دوسرے بچوں کو بھی ایسی ہی شکایت ہے۔ ان دو پہلوؤں پر کام کرنے سے ہی مستقبل میں جنسی ہوس میں ملوث افراد کو کسی ناجائز حرکت سے روکنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح درسگاہوں میں جنسی زیادتی چونکہ ایک سنگین مسئلہ ہے، اس لئے ایک ٹھوس واقعہ سامنے آنے کے بعد قومی منظر نامہ پر متحرک اور فعال علمائے کرام کا اخلاقی و دینی فرض تھا کہ وہ اس ذہنیت اور جرم کے خلاف آواز بلند کرتے۔ مگر جس طرح اس معاملے پر خاموشی اخیتار کی گئی ہے وہ بہت افسوس ناک ہے ۔ ریپ ایک سنگین جرم ہے چاہے کوئی مفتی کرے یا عام آدمی اور اگر عام آدمی کے لیے قانون ہے تو مفتی صاحب کے لیے بھی وہی قانون ہے۔ اگر فتوی بریگیڈ دیگر افراد کے اس طرح کے جرم پر ملک میں پرتشدد مظاہرے کرتے ہیں تو اس معاملے میں بھی کرنے چاہیے تھے۔ مگر یہ خاموشی ان کی اخلاقی پستی کی مظہر ہے۔