250
امریکہ میں حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنڈزی گراہم نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان سے انخلا کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کرنے کے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔ ری پبلکن سینیٹر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 11 ستمبر کو امریکی فوجی انخلا سے قبل افغانستان میں تشدد کے واقعات میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کسی سمجھوتے پر اتفاق رائے کے لیے دوحہ میں جاری بات چیت سست روی کا شکار ہے۔ پاکستان اس بات پر زور دے رہا ہے کہ امریکہ فوجی انخلا سے قبل افغانستان میں تمام افغان فریقوں کے مابین سیاسی تصفیہ یقینی بنائے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے بدھ کو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے دوران افغانستان سے امریکی انخلا اور اس سے پیدا شدہ صورتِ حال پر بریفنگ بھی دی گئی۔ سینیٹر لنڈزی گراہم نے منگل کو اپنی ٹوئٹس میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ کو ‘حیرت انگیز’ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ افغانستان سے انخلا کرتے ہوئے پاکستان کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے جو کہ عراق سے بھی بڑی غلطی ثابت ہو گی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ‘ہم کس طرح پاکستان سے تعاون کیے بغیر افغانستان سے اپنا انخلا مؤثر ہونے کی توقع کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ ہفتے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ صدر بائیڈن کے ساتھ ان کا تاحال کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ “ان (صدر بائیڈن) کے پاس جب وقت ہو تو وہ مجھ سے بات کر سکتے ہیں، لیکن اس وقت واضح طور پر ان کی ترجیحات دوسری ہیں۔”خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن نے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد سے تاحال پاکستان کے وزیر اعظم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
مبصرین افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جنگ سے متاثرہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین ملک میں دوبارہ خانہ جنگی کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ہ پاکستان کا خدشہ صحیح ثابت ہو رہا ہے کہ امریکہ ماضی کی طرح افغانستان کو عدم استحکام کی صورت میں چھوڑ کر جا رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے 13 اپریل کو شائع ہونے والے اپنے ادارئیے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’مختصر سی سفارتی اور نیم دلی کوشش کے بعد ، مسٹر بائیڈن نے افغانستان سے غیر مشروط انخلا کا فیصلہ کیا ہے، جس سے امریکہ مزید اخراجات اور جانوں کے ضیاع سے بچ سکتا ہے لیکن یہ یقینی طور پر ملک کے 39 ملین لوگوں کے لئے تباہی کا باعث ہوگا اور اس تمام تر صورتحال کے باوجود امریکہ افغانستان امن میں سنجیدہ نہیں بلکہ پاکستان کے کردار کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے کسی اور سمت آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
امریکی کانگرس میں ان دنوں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے متعدد مباحث دیکھنے میں آئے ہیں۔ پاکستانی قیادت جس میں وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی سر فہرست ہیں ، مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کی سفارتی کوششوں کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے اور تحریک انصاف کی ’مؤثر اور قومی مفاد‘ پر استوار خارجہ حکمت عملی کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کا اعتراف کیا جارہا ہے۔ بلا مبالغہ یہ بیانات پاکستانی عوام کا دل بہلانے کے لئے دیے جاتے ہیں اور ان میں عالمی سفارت کاری کے حوالے سے کوئی خاص نکتہ شامل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں امریکہ کے علاوہ مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستانی عوام کو یہ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی اہمیت و ضرورت کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا تو دوسری طرف واشنگٹن میں سیاست دان بالکل متضاد رائے کا اظہار کررہے ہیں۔
اسی پس منظر میں کانگرس مین ٹیڈ لیو نے استفسار کیا ہے کہ ’میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس سال کے شروع میں کیا ہؤا تھا۔ دنیا کے چالیس لیڈروں کو ماحولیاتی سمٹ میں مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستانی لیڈر کو دعوت نہیں دی گئی۔ حالانکہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ جن چالیس ممالک کے لیڈروں کو دعوت دی گئی تھی ان میں سے 35 کی آبادی بھی پاکستان سے کم ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم کو بلاتے ہوئے پاکستان کو نظر انداز کرنا درحقیقت توہین آمیز رویہ تھا‘۔ تاہم جس بات پر واشنگٹن کے سیاست دان بے چینی اور پریشانی کا اظہار کررہے ہیں حالانکہ امریکہ افغان جنگ سے دست بردار ہو کر اب وہاں سے اپنی فوجیں نکال رہا ہے، اس بارے میں اسلام آباد میں ویسی ہی پریشانی دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس بات کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی کہ امریکی صدر نے کیوں اب تک عمران خان سے بات نہیں کی ۔
وزیر اعظم نے حالیہ انٹرویو میں اس اندیشے کا اظہار ضرور کیا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے لیکن اس قیاس کو مسترد کیا ہے کہ افغان طالبان طاقت کے زور پر کابل پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرلیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ مختلف گروہ کسی نہ کسی معاہدہ پر راضی ہوجائیں گے اور افغانستان میں امن کا نیا دور شروع ہوگا۔ لیکن خارجہ پالیسی کی بنیاد خوش گمانی کی بجائے بدترین قیاسات پر رکھی جاتی ہے تاکہ توقع کے برعکس حالات رونما ہونے کی صورت میں ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کی جاسکے۔ پاکستانی حکومت ایسی منصوبہ بندی کا کوئی اشارہ دینے میں ناکام ہے اور وقت تیزی سے بیت رہا ہے۔ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو مزید افغان پناہ گزین پاکستان کا رخ کریں گے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لئے معاشی، سماجی اور عسکری نقطہ نظر سے پریشان کن ہوگی۔
۔ ان سب مسائل کو افغانستان کی صورت حال اور اس میں پاکستان کے کردار سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ لگتا یہ ہے پاکستان عالمی سفارت کاری میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے اور اصلاح احوال کا کوئی متبادل منصونہ موجود نہیں ہے۔ اگر امریکہ پاکستان کو اس سارے کھیل سے نکالنا چاہتا ہے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے پاس روس اور چین کا بہترین آپشن موجود ہے۔ اگرچہ چین کے ساتھ سردجنگ کی وجہ سے امریکہ پاکستان کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے تاہم پاکستان اسے استعمال کر کے امریکہ کو اس بات پر مجبور کر سکتا ہے کہ وہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے پاکستان کو ہر صورت اعتماد میں لے۔