اس وقت پوری دنیا کے لیے بھارت کے شہر مہاراشٹر میں سبے سے پہلے رپورٹ ہونے والا بھارتی وریرینٹ جسے ڈیلٹا ویرینٹ بھی کہا جارہا ہے خدشے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان پڑوسی ملک ہونے کے ناطے اس حوالے سے سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہے کیونکہ بھارتی ویرینٹ جس قدر خطرناک ہے اس کے لیے پاکستان کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے کورونا کی بھارتی قسم ڈیلٹا کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے عوام پر زور دیا ہے کہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو نتائج برے ہو سکتے ہیں۔ این سی او سی کی جانب سے جاری اعلامیہ میں ایس او پیز پر عملدرآمد تیز کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ڈیلٹا وائرس کے کیسز سامنے آنے شروع ہو چکے ہیں۔ اس سے ملک میں کورونا کی چوتھی لہر پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اس لئے قومی ادارے کی جانب سے جامع حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے مزید 1 ہزار 980 کیسز سامنے آئے ہیں، مزید 24 افراد اس موذی وباء کے سامنے زندگی کی بازی ہار گئے، مزید 738 کورونا مریض شفایاب ہو گئے، جبکہ مثبت کیسز کی شرح 4 اعشاریہ 17 فیصد ہو گئی۔ دوسری جانب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر نے کورونا وائرس کی وبا کی چوتھی لہر شروع ہونے سے متعلق خبردار کرتے ہوئے ایس او پیز پر عمل نہ ہونے کی صورت میں شادی ہالز اور ریستوران بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ 2 ہفتے پہلے بتایا تھا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کورونا وائرس کی وبا کی چوتھی لہر کے امکانات ظاہر کررہی ہے، چوتھی لہر سے متعلق 2 ہفتے پہلے ہی خبردار کردیا تھا، اب کورونا وائرس کی وبا کی چوتھی لہر شروع ہونے کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
کرونا وائرس کی کسی بھی لہر کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مہلک وائرس کسی آبادی میں کتنی تیزی سے پھیلتا ہے۔ ماہرین کے خیال میں چونکہ ڈیلٹا ویریئنٹ پاکستان پہنچ گیا ہے تو یہ بہت پھیلے گا اور چوتھی لہر کی وجہ بن سکتا ہے۔ ڈیلٹا ویریئنٹ خطرناک حد تک تیزی سے پھیلتا ہے اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونے کے امکانات پوری طرح موجود ہیں۔ واضح رہے کہ جولائی کے دوران منایا جانے والا عید الاضحی کا تہوار پاکستان میں کرونا وائرس کی چوتھی لہر کے آنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مذہبی تہواروں پر لوگوں کی نقل و حرکت میں اضافہ ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ بڑے شہروں سے قصبوں اور دیہاتوں کی طرف جاتے ہیں، جبکہ قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کی خاطر بھی بڑی تعداد میں لوگ مختلف شہروں کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ ’احتیاطی تدابیر کی غیر موجودگی میں انسانوں کی یہ نقل و حمل کرونا وائرس زیادہ تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ بن سکتی ہے اور اسی سے کرونا وائرس کی چوتھی لہر کے امکانات موجود ہیں۔
ایک طرف تو پاکستان تیزی سے ویکسینیشن کے لیے کوششیں کر رہا ہے تاہم دوسری جانب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں ویکسینیشن کا عمل تاحال نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مقرر کردہ ہدف تک نہیں پہنچ سکا، جس کے مطابق 18 سال سے زائد عمر کے ایک کروڑ 20 افراد کو 30 جون تک ویکسینیشن لگائی جانی تھی۔ تاہم پنجاب میں اب تک 18سال سے زائد عمر افراد کے 86 لاکھ افراد کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی گئی ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سب سے زیادہ کیسز ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صوبے میں وائرس بتدریج پھیل رہا ہے۔ اس پیش رفت سے باخبر ذرائع کے مطابق راولپنڈی میں بھارتی ڈیلٹا قسم کی موجودگی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر غیر مؤثر انتظامات کو ظاہر کرتی ہے جہاں بیرونِ ملک سے کورونا سے متاثرہ افراد با آسانی آرہے ہیں، جو کہ مقامی آبادی کے لیے بھی خطرے کا باعث بن رہے ہیں۔ڈیلٹا کیسز سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ائیر پورٹ پر صحت کی سہولیات کا فقدان ہے اور مسافروں کی مؤثر اسکریننگ نہیں کی جارہی۔
بھارتی ویرینٹ کے خلاف پاکستانی حکومت کو دوبارہ پابندیوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ بھارت نے جس وقت کو ویکس کی تیاری شروع کی تو ویکسین ڈپلومیسی کے نام پر دنیا میں بھیجنا شروع کر دی اور مودی اپنی تعریفوں پر پھولے نہ سمائے ۔ جس کی وجہ سے کم میلے اور بہار مغربی بنگال میں سیاسی جلسوں کی کھلم کھلا اجازت دے دی گئی جس کا نتیجہ لاکھوں افراد کی موت کی صورت میں نکلا، کچھ اس طرح کی صورتحال اس وقت پاکستان میں بھی بن سکتی ہے۔ معروف امریکی جریدے دی اکانومسٹ نے چند روز قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان کو کووڈ 19 سے کامیابی سے نمٹنے والے ملکوں کی فہرست میں ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا ہے۔ یہ نہ ہو کہ تحریک انصاف کی حکومت اس کامیابی کے نشے میں ہی چور نہ رہے ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوام مل کر اس لہر کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ورنہ صورتحال انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔