11 جولائی سنہ 1995 کو بوسنیائی سرب فوجیوں نے بوسنیا ہرزیگووینا میں سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کر لیا۔ دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں ان کی فورسز نے منظم انداز میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ یورپ میں ہونے والا بدترین قتل عام تھا ۔ اس واقع کو 26 برس بیت چکے ہیں تاہم سربرینیکا میں ہونے والا قتل عام آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر خوف طاری کر دیتا ہے۔ سربرینیکا قتل عام درحقیقت ایک بدترین نسل کشی تھی جس میں بوسنیا کی سرب فوج نے بوسنیائی مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔ عوامی بوسنیا ہرزیگیونیا یوگوسلاویہ کا حصۃ تھی۔ یہ ایک کثیر ثقافتی علاقہ تھا جس میں بوسنیائی مسلمان، راسخ العقیدہ سرب اور کیتھولک عیسائی رہتے تھے۔ 1992 کے ریفرنڈم کے بعد بوسنیا ہرزیگیونیا ایک آزاد ملک بن گیا۔ تاہم بوسنیائی سربوں نے اس انتخابات کا بائیکاٹ کیا کیونکہ وہ ایک وسیع سربیا کے قیام کے حق میں تھے۔ پس بوسنیائی سربوں نے سرب حکومت کے ساتھ مل کر اس حصے پر قبضہ کر لیا۔
سربرینیکا پر قبضے کے بعد مالدچ نے خواتین اور بچوں سمیت تمام شہریوں کی بے دخلی کے احکامات جاری کر دیے جبکہ لڑنے کے قابل مردوں کو قید کر لیا۔ بوسنیائی سرب فوج نے آٹھ ہزار سے زائد مسلم مردوں اور لڑکوں کا منظم انداز میں قتل کر دیا اور ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں پھینک دیں۔ سربوں نے بعد میں شواہد چھپانے کی غرض سے کئی قبریں کھود کر ان لاشوں کو دوبارہ دفنایا۔ اس واقعے کے عینی شاہدین نے بوسنیائی سرب فوج کی قتل و غارت، ریپ اور اذیت کی ہولناک کہانیاں سنائیں۔ 24 جولائی اور 16 نومبر کو بوسنیائی سرب رہنما رادووان کراجچ اور ملادچ کو انٹرنیشنل کریمینل ٹربیونل نے نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا تھا۔
اس نسل کشی میں بچ جانے والے ایک پروفیسر امرہ سابق الرئیسن نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ سربیا جغرافیائی طور پر وسعت اور نسلی طور پر صاف گریٹر سربیا چاہتا تھا پس اس لیے سرب فوج نے ہمیں الگ کر کے ہمارا قتل عام شروع کر دیا اور انکا خیال تھا کہ دنیا اس نسل کشی کے بارے میں کبھی نہیں جان سکے گی۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ جب مسلمان پناہ گزینوں نے شہر چھوڑنے کے لیے بسوں پر سوار ہوئے تو بوسنیا کی سرب فورسز نے مردوں اور لڑکوں کو بھیڑ سے علیحدہ کیا اور انھیں وہاں سے دور لے گئے تاکہ انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیں۔ ہزاروں افراد کو پھانسی دے دی گئی اور پھر بلڈوزروں کے ذریعہ ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دھکیل دیا گیا۔ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ بعض افراد کو تو زندہ ہی دفن کر دیا گیا تھا جبکہ کچھ بڑے بوڑھوں کو اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مارے جاتے ہوئے دیکھنا پڑا تھا۔
یہ سب کیسے ہوا
یہ قتلِ عام بوسنیائی جنگ کے دوران بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھا۔ بوسنیائی جنگ سنہ 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے بکھرنے کے دوران ہونے والے کئی مسلح تنازعات میں سے ایک تھی۔ اس وقت سوشلسٹ ریپبلک آف بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کہلانے والی یہ ریاست یوگوسلاویہ کا حصہ تھی اور یہاں کئی اقوام آباد تھیں جن میں بوسنیائی مسلمان، قدامت پسند سرب اور کیتھولک کروٹ افراد شامل تھے۔ بعد میں بوسنیا ہرزیگووینا نے سنہ 1992 میں ایک ریفرینڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور اسے کچھ ہی عرصے بعد امریکی اور یورپی حکومتوں نے تسلیم کر لیا۔ مگر بوسنیائی سرب آبادی نے ریفرینڈم کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس کے بعد جلد ہی سربیا کی حکومت کی حمایت یافتہ بوسنیائی سرب فورسز نے نئے تخلیق شدہ اس ملک پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے اس علاقے سے بوسنیائی لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا تاکہ ’گریٹر سربیا‘ بنایا جا سکے۔ یہ پالیسی نسلی کشی کے مترادف تھی۔ بوسنیائی لوگ اکثریتی طور پر مسلمان ہوتے ہیں اور یہ بوسنیائی سلاو نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے قرونِ وسطیٰ کے دور میں عثمانی ترک حکمرانی کے عرصے میں اسلام قبول کیا تھا۔
بوسنیائی سرب فوجیوں نے 1992 میں سربرینیکا پر قبضہ کر لیا تھا مگر فوراً بعد ہی اسے بوسنیائی فوج نے دوبارہ حاصل کر لیا۔ فریقوں کے درمیان جھڑپوں کے ساتھ شہر محاصرے میں چلا گیا۔ اپریل 1993 میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس علاقے کو ’کسی بھی مسلح حملے یا کسی دیگر دشمنانہ کارروائی سے محفوظ علاقہ‘ قرار دے دیا۔ مگر محاصرہ جاری رہا۔ شہریوں اور اقوامِ متحدہ کے امن فوجیوں کے طور پر کام کر رہے ڈچ فوجیوں کی چھوٹی سی فورس کے لیے رسد ختم ہونی شروع ہوگئی۔ بوسنیائی رہائشی بھوک سے مرنے لگے۔ چھ جولائی سنہ 1995 کو بوسنیا کی سرب فورسز نے سریبرینیکا پر شدومد کے ساتھ حملہ کیا۔ اقوام متحدہ کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے یا پھر شہر میں پیچھے ہٹ گئی اور جب نیٹو کی افواج کو فضائی حملے کے لیے بلایا گیا تو اس نے سرب فورسز کی پیش رفت کو روکنے میں کوئی مدد نہیں کی۔ یہ انکلیو پانچ دنوں میں ہی ان کے قبضے میں آ گیا۔ جنرل ملادچ دوسرے جرنیلوں کے ساتھ شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے اور گشت کیا۔ تقریبا 20 ہزار مہاجرین اقوام متحدہ کے مرکزی ڈچ کیمپ کی جانب فرار ہوگئے۔اس کے دوسرے دن ہی قتل و غارت گری کا آغاز ہو گیا۔
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی ٹریبونل کی نسل کشی کی تصدیق
بوسنیائی سرب کمانڈر نے اس فیصلے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ” فوجی عمر کے تمام مسلمان مردوں کو گرفتار کرنے کے لیے متحدہ طور پر کوشش کی گئی تھی۔’ خواتین اور بچوں کو لے جانے والی بسوں میں باقاعدگی سے مردوں کی تلاشی کی گئی اور تلاش کرنے والے فوجی اکثر ایسے جوان لڑکوں اور بوڑھے مرد کو بھی لے جاتے تھے جو فوج میں خدمات انجام دینے کے اہل نہیں ہوتے تھے” 13 سے 17 جولائی 1995 تک 8000 سے زائد افراد کو قتل کر دیا گیا اور ان کی لاشوں کو 80 سے زائد اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا۔ ان کا مقصد اپنے گناہوں کو چھپانا تھا تاہم شہر کے مختلف حصوں میں پھر بھی لاشیں نظر آرہی تھیں۔ ہر سال نئے شناخت شدہ لاشوں کو 11 جولائی کو یعنی اس نسل کشی والے دن دفنایا جاتا ہے۔ گزشتہ برس اس دن دفن ہونے والی میتوں کی تعداد 9 تھی اور 25 سال کے قتل عام کے بعد اب بھی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔
اس قتل عام کے دو بڑے مجرم راتکو ملادیچ اور رادووان کراجچ ہیں ان دونوں کو 2008 اور 2011 میں گرفتار کر لیا گیا۔ رادووان کراجچ کو 21 جولائی 2008 میں بلغراد میں گرفتار کیا گیا ۔ وہ ایک ڈاکٹر کے روپ میں چھپا ہوا تھا۔ جب کہ ملادیچ کو شمالی سربیا میں اس کے رشتہ دار کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ بین الاقوامی کریمینل کورٹ نے ان دونوں رہنماؤں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی تاہم اس قتل عام میں شریک دیگر بہت سارے افراد ابھی تک قانون ایکشن سے بچے ہوئے ہیں۔
میلادچ نے برسوں سے مسلمانوں کے خلاف اپنے فوجیوں کے دلوں نفرت پیدا کررہا تھا۔ وہ ان کو سلطنت عثمانیہ کے حوالے دیتا تھا جنہوں نے 1389 میں کوسوو کی جنگ میں سربوں کو شکست دے کر ان پر قبضۃ کر لیاتھا۔ اور پھر کوسوو سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا تھا اور ترکوں نے اس پر پانچ سو سال حکومت کی تھی۔ اس انسانیت سوز قتل عام میں آرتھوڈوکس چرچ نے بھی میلادچ کا شاتھ دیا۔ سرب فوجی کمانڈر رادووان کراجچ جس کو اراکان کے نام سے بھی جانا چاتا ہے بطور ہیرو مناتے ہیں۔ اس نسل کشی کے 26 سال بعد بھی سربیا کے سیاسی رہنما اور شہری اس کو نسل کشی نہیں مانتے۔
1999 میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان نے لکھا تھا کہ غلطی، غلط فیصلے یا برائی کو پہچاننے کی نااہلی کی وجہ سے ہم سربیا کے لوگوں کو اس قتل عام سے بچان میں اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ انصاف ملے بغیر آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے پیاروں کی یاد میںوہاں بیٹھتی ہے۔ خون اور گوشت کی بو ابھی تک ان کے نتھنوں میں باقی ہے۔ ان کے پیاروں کی لاشیں شہر بھر میں بکھری ہوئی ہیں اور وہ ابھی تک ان کی یادوں میں محو ہیں۔