تین روز قبل داسو پر چینی باشندوں کی بس کو حادثے کے معاملے پر چین کی اعلیٰ سطحٰ تحقیقاتی ٹیم اسلام آباد پہنچ گئی۔ ذرائع کے مطابق چینی تحقیقاتی ٹیم آج ہفتہ کو داسو کا دورہ کرے گی، چینی ٹیم حادثہ کے حقائق جاننے کے لیے جائے وقوع جائے گی۔پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کا کہنا ہے کہ داسو واقعے کی ابتدائی تفتیش کے دوران بارودی مواد کے شواہد ملنے کی تصدیق ہوئی ہے، اس لیے اس واقعے میں دہشت گردی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر فواد حسین کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ذاتی طور پر اس حوالے سے ہونے والی ہر پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستانی حکومت چینی سفارتخانے کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ ’ہم مل کر دہشت گردی سے لڑنے کے لیے پُرعزم ہیں۔’
دوسری جانب وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود نے ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ بس میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے گیس لیک ہوئی جس سے ایک دھماکہ ہوا اور بس گھائی میں جاکر گری اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ بس حادثہ تھا، دہشتگردی کا واقعہ نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے متضاد بیانات پر سوشل میڈیا پر اُن پر تنقید کی جارہی ہے اور ان کے متضاد بیانات کا مزاق اُڑایا جارہا ہے۔دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہا گذشتہ روز چینی انجینیئرز کی بس کو پیش آنے والا حادثہ دہشتگردوں کا حملہ تھا تو اس میں ملوث مجرموں کو فوراً گرفتار کر کے سخت سزا دی جانی چاہیے اور اس واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے چین، پاکستان تعاون کے منصوبوں پر سکیورٹی کو مزید بڑھانا چاہیے تاکہ ان منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ماضی میں اس علاقے میں دہشتگردوں کا کوئی نیٹ ورک موجود نہیں تھا اور جب بھی دہشتگردی کا کوئی واقع سامنے اتا ہے تو عسکریت پسند تنظیمیں اس کی زمہ داری قبول کرتی ہیں۔ لیکن اس کیس میں ایسا نہیں اور ابھی تک کسی عسکریت پسند تنظیم نے اسکی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم چین نے اس سے پہلے ان علاقوں میں کام کرنے والے اپنے شہریوں کو خطرے کی الرٹ جاری کی تھی کہ وہ اپنے نقل و حرکت کو محدود کریں اور پہلے سے زیادہ اختیاط کریں۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہ یہ حملہ کسی عسکریت پسند جماعت نے نہیں کیا اور اس میں بین الاقوامی ہاتھ ملوث ہے۔ ان کے مطابق یہ جماعت الدعویٰ کے سربراہ حافظ سعید پر لاہور میں ہونے والے حملے کی ایک کڑی ہے اور اس میں پڑوسی ملک ہندوستان ملوث ہے۔
بھارت ایک طویل عرصے سے سی پیک کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چینی انجینیرز کے خلاف ایک عرصے سے متحرک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات ہیں مگر اس طرح اگر چینی باشندوں کو پاکستان میں مسلسل نشانہ بنایا گیا تو دونوں کے ممابین تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین دراڑیں پیدا کرے۔ چین کی طرف سے اس حادثے پر رد عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ چین کو اس حوالے سے خدشات ہیں مگر چین اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہے کہ اس وقت پاکستان کئی محاذون پر لڑ رہا ہے اور اس طرح کے روک تھام کی کوشش کرتا رہاہے مگر اس طرح کے واقعات کی مکمل روک تھام کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔ دونوں ممالک مل کر ہی اس طرح کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں اس طرح کے حملوں میں شدت آ سکتی ہے کیونکہ اس وقت امریکہ افغانستان سے انخلا کر رہا ہے اور طالبان اس وقت تیزی سے افغانستان کے مختلف حصوں پر قابض ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب طالبان کابل پر بھی قابض ہو جائیں۔ طالبان اس وقت امریکہ اور بھارت کے مقابلے میں چین، روس اور پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ ممالک ان کی حمایت کریں۔ جب چین اور روس اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ افغانستان میں ایک امریکی یا بھارتی کٹھ پتلی حکومت ان کے مفاد میں نہیں ہے اس لیے وہ بھی طالبان کی حمایت کے لیے تیار ہیں ۔ تاہم بھارت اس طرح کے حملوں سے چین کو یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کر رہا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت سے باز رہے۔
تاہم چین کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس طرح کے حملوں میں را کا وہی ڈیسک کام کر رہا ہے جس کو خصوصی طور پر سی پیک کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر ا سطرح کے حملوں کو ناکام بنا کر بھارت کے مذموم مقاصد کو ناکام کردیں گے۔