پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجینیئرز کی ایک بس کو مکینیکل خرابی کے باعث حادثہ پیش آیا ہے جس کے نتیجے میں نو چینی شہریوں سمیت 12 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس حادثے کے بعد چین نے پاکستان سے تحقیقات کا مطالبہ کیا جو کہ بین الاقوامی دنیا کی ایک روایت ہے اور ہر حکومت اپنے شہریوں کی ہلاکت کی وجہ جاننا چاہتی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے بیرون ممالک کام کرنے والے افراد یا انجینیرز اپنی حکومت سے اس طرح کی سرپرستی کی توقع کرتے ہیں ۔ پس چین کی جانب سے ان ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ نہ تو بین الاقوامی دنیا کے سفارتی قواعد و قوانین میں کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ تاہم اس پر جو پروپیگنڈہ پڑوسی ملک یا مغربی میڈیا کی جانب سے کیا جارہا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے چین اور پاکستان کے تعلقات سے بعض ممالک کو کس قدر تکلیف ہے۔
اس واقعے کے بعد وائس آف امریکہ نے ایک خبر لگائی جس میں یہ دعوٰی کیا گیا کہ واقعے کے بعد داسو ڈیم کی تعمیر پر کام کرنے والی چین کی کمپنی نے منصوبے پر کام روک دیا ہے۔ ساتھ ہی چینی کمپنی نے پاکستان کے ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سانحے کے بعد وزرا کے متضاد بیانات اور حقائق چھپانے کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان اور چین کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے خطرناک ہے۔ چین نے پاکستان کے حکام پر عدم اعتماد کرتے ہوئے تحقیقات کے لیے اپنی ٹیم بھیجی ہے۔ اول تو اس خبر کے غلط ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ داسو ڈیم پر کام ہرگز نہیں روکا گیا۔ اس ضمن میں سی جی جی سی کی جانب سے معطلی کی سمری کو سرے سے منظور ہی نہیں کیا گیا۔ جب کہ اس حوالے سے مکمل تحقیق کے بغیر ہی یہ خبر لگا دی گئی ہے جس سے اس خبر کے مقاصد واضح ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں تعمیری کاموں کی معطلی معمول کی بات ہے اور دوران تعمیر کام رک بھی جاتے ہیں ۔ داسو ڈیم پر 2019 میں بھی چند مزدوروں کی ہلاکت کی وجہ سے اس پر کام روک دیا گیا تھا۔ اس لیے اس بات پر بھی یہ کہہ دینا کہ داسو ڈیم پروجیکٹ رک گیا ہے یا چین اپنے انجینیرز واپس بلا رہا ہے محض پروپیگنڈا ہے جس میں کوئی حقیقت موجود نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں ڈیم بننے سے ان تمام قوتوں کو شدید مسائل لاحق ہیں جو پاکستان کو بنجر بنانے کے لیے ایک عرصے سے کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال بھاشا ڈیم کی ہے ۔ جیسے ہی اس منصوبے پر کام شروع ہوا بھارت نے حسب معمول چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ بھاشا ڈیم گلگت بلتستان میں بنایا جا رہا تھا. بھارت نے ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو درخواستیں دینا شروع کر دیں کہ اس منصوبے کے لئے رقم فراہم نہ کی جائے۔ تاہم پاکستان نے اپنی کوششوں سے اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ ہی دیا۔ یہ صرف ایک مثال ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں ڈیم بنانے سے بعض ممالک کو کس قدر تکلیف ہے۔
یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ اس سے قبل کالا باغ ڈیم کے لیے بھارت کی لابنگ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں ہ اگر ہم کالا باغ ڈیم بناکر ہرسال سمندر میں ضائع ہوجانے والے پانی کو محفوظ کرلیں تو پاکستان صرف 5سال میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود کالاباغ ڈیم میں اس قدر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں کہ پاکستان اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پنہچانے کا نہ سوچ سکا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ڈیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھارت ہر سال پاکستان کی طرف پانی چھوڑتا ہے جس سے طغیانی اور سیلاب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے تاہم بھارت کی مسلسل لابنگ اور بعض وطن دشمن عناصر کی وجہ سے پاکستان کالا باغ ڈیم کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکا۔
پاکستان کے خلاف روایتی جنگ کے علاوہ آبی ہتھیار کا منصوبہ کوئی کل کی بات نہیں بلکہ برسوں سے بھارت اور اس کے مغربی حلیف اس پر کام کر رہے ہیں۔ اس لیے داسو ڈیم کے حوالے سے بھارتی مذموم مقاصد یا مغربی پروپیگنڈا کوئی نئی یا حیران کن بات نہیں ہے۔ مگر اس صورتحال میں جو لوگ ذمہ دار عہدوں پر فائز ہیں ان کی قابلیت پر بھی گہرے سوال اٹھتے ہیں۔ یہ ایک قومی سطح کا واقعہ تھا تاہم جس طرح اس واقعہ پر وزراء اور مشیران کے بیانات میں تضادات دیکھا گیا ہے وہ ان کی قابلیت پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔ کیا اس واقعہ پر بیٹھ کر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے کر بات چیت کی ضرورت نہیں تھی؟ اس سانحے کے بعد جس طرح بیانات دیے گئے اس سے صورتِ حال میں کنفیوژن پیدا ہوئی۔ ان کے بقول اگر تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ایک وزارت کی طرف سے ایک بیان سامنے آتا تو صورتِ حال بہتر ہوتی۔ کیونکہ حکومتی عہدوں پر بیٹھے عہدیداران اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دنیا کس طرح پاکستان چین دوستی ، سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لیے برسرپیکار ہیں تو اس حساس موضوع پر اس طرح کی کنفیوژن کا جواب کس سے مانگا جائے؟