بھارت میں روس کے نائب سفیر نے ایک روز قبل طالبان کو حزب اللہ سے تشبیپہ دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ملک اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی بیرونی طاقت بشمول بھارت افغانستان میں مداخلت سے باز رہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی دہلی کو ان کا مخلصانہ مشورہ یہ یے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے کیونکہ طالبان ایک حقیقی قوت بن کر ابھرے ہیں جبکہ نائب سفیر نے بھارت کو ” بڑا کھلاڑی” قرار دیا۔ روس کے یہ پالیسی بیان نہ صرف اس کے اپنے لیے بلکہ پورے خطے بشمول بھارت کے لیے اہم ہے کیونکہ بیان بھارت میں روس کے ایک اعلی سفیر نے دیا ہے۔
روسی سفیر بابشکن کا طالبان کا حزب اللہ کے ساتھ تقابل درست ہے۔ کیوں کہ حزب اللہ اب ایک سیاسی جماعت بن چکی ہے جس کے لیے لوگ باقاعدہ ووٹ دیتے ہیں اور اب یہی صورتحال طالبان کی ہے جن کو لوگوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ روس تاحال طالبان کو دہشت گرد گروہ کہتا ہے تاہم پھر بھی طالبان کے بات چیت کی میزبانی بھی کرتا ہے۔ حزب اللہ کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ حزب اللہ ایک نیشنل لبریشن مومنٹ ہے اور مستقبل میں یہ بات طالبان کے ارادوں کے بارے میں بھی کہی جا سکے گی۔مزید برآں جس طرح بعض ممالک حزب اللہ کو دہشت گرد جماعت قرار دیتے ہیں اسی طرح طالبان کو بھی دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔
جہاں تک بابشکن کا پہلا نکتہ درست ہے وہیں پر بھارت کو افغانستان میں بگ پلئیر کہنا بھی بجا ہے۔ بھارت نے نہ افغانستان میں کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے بلکہ وہاں انٹلی جنس کا مضبوط جال بھی بچھا رکھا ہے تاہم روس نے اس حساس موضوع پر کبھی بات نہیں کی۔ بھارت کے سفارتی عملے کے ایمرجنسی انخلا کے درپردہ بھی انٹلی جنس کے ان اثاثوں کو وہاں سے نکالنا تھا۔ اس لئے اس بات کو ہرگز رد نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت اس نام نہاد گریٹ گیم کا ایک اہم کھلاڑی ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس کا کردار بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر گزشتہ چند ہفتوں سے طالبان کے حملوں کو دیکھا جائے تو بابشکن نے بیرونی فریقین کو درست نصیحت کی ہے کہ وہ طالبان کے خلاف روایتی فوجی مداخلت سے گریز کریں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت کابل میں اپنے حلیفوں کو بچانے کے لیے ممکنہ طور پر آخری کوشش کرے تاہم یہ ممکن نہیں کیونکہ متوقع فوائد کی نسبت اس کام میں نقصان کا تخمینہ زیادہ ہے۔ اس کے علاقہ بھارت کو ٹرانزٹ کے لیے ایرانی فضا استعمال کرنا پڑے گی تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کی نئی حکومت شاید ہی امریکی مفادات کے لیے بھارت کی مدد کرے۔
بھارت کے لیے سب سے بہترین دستیان آپشن یہی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرے اور توقع ہے کہ بھارت کا پرانا حلیف روس اس کام میں بھارت کی مدد کرے کیونکہ اس وقت روس اور طالبان کے مابین اچھے مراسم قائم ہیں۔ اور طالبان چاہتے ہیں کہ روس ان کی سفارتی حمایت جاری رکھے۔ روس یہ بات ہرگز نہیں چاہتا کہ کہ بھارت افغانستان کے ساتھ پراکسی جنگ کرے آیا یہ جنگ پاکستان کے خلاف ہو یا طالبان کے خلاف۔ کیونکہ بھارت کی یہ حرکت یوریشین گریٹ پاورز پلان کو نقصان دے گا ۔ یہ منصوبہ انڈین اوشین ریجن کو پاکستان ازبکستان اور افغانستان کے ذریعے آپس میں ملائے گا۔ یعنی یہ جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملانے کا سبب بنے گا۔
موجودہ صورتحال میں بابشکن کی پالیسی بہتر اور عقلمندانہ ہے۔ اور یہ پالیسی افغانستان کیموجودہ صورتحال کے پیش نظر ہی پروان چڑھ رہی ہے۔ امید ہے کہ نئی دہلی ماسکو کی تجاویز پر عمل کرے گا کیونکہ روس نے ہمیشہ ہی بھارت کے مفادات کو ذہن میں رکھا ہے۔ سرد جنگ کے برعکس روس کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف بھارت کی حمایت نہیں کرے گا۔ بلکہ روس یہ چاہتا کہ امریکی انخلا کے بعد بھارت خطے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرے یعنی طالبان اور پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرے۔