افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بعض مشاہدین اس پات پر غور کرر ہے ہیں کہ کیا موجود صورتحال میں 1990 کی افغان سول وار کے دوران ہونے والی خطی پراکسی جنگ دوبارہ سراٹھا سکتی ہے؟ اس امر کا خدشہ حال ہی میں ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ میں نئی دہلی میں مقیم ایک صحافی پرانے شرما نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے ۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بھارت کی جانب سے طالبان کی پیش قدمی پر خدشات ایران اور روس کے ساتھ شمالی اتحاد کی تجدید کر سکتے ہیں ۔ اگرچہ ماہرین اس صورتحال کے بارے میں شبے کا شکار ہیں تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ بھارت اس طرح کے ممکنات کی طرف دیکھ رہا ہے۔ تاہم اس طرح کا کوئی بھی قدم موجودہ صورتحال کو شاید ہی تبدیل کرنے کا سبب بن سکے۔
واضح رہے کہ شمالی اتحاد کو بھارت، ایران اور روس کی حمایت حاصل تھی تاہم تب بھی حیران کن طور پر طالبان نے شمالی افغانستان کے کافی سارے علاقے پر قبضۃ کر لیا ہے۔ جبکہ انہوں نے ایران کے بارڈر کے ساتھ ساتھ اپنی موجودگی کو بھی مستحکم کر لیا ہے۔ اس لیے یہ بات خالی از امکان ہے کہ کوئی بھی بیرونی قوت افغانستان میں کسی بھی فوجی پراکسی کو مدد فراہم کرے گی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ فضائی رستے سے مدد فراہم کی جاسکے تاہم یہ ایک مہنگا اور نہ چھپایا جا سکنے والا عمل ہے۔ حتی کہ ایسی کسی بھی ضورت میں یہ کام صرف بھارت کر سکتا اور روس اور ایران ایسا کوئی کام ہرگز نہیں کریں گے۔ –
ماسکو نے حال ہی میں طالبان سے بہترین سیاسی تعلقات استوار کیے جن کا مقصد امن کے عمل کو آگے بڑھانا ہے اور روس نے اس حوالے سے کئی مواقع پر طالبان کو اپنے دارالحکومت میں بات چیت کی دعوت بھی دی ہے ۔ حتی کہ طالبان کو سرکاری طور پر دہشت گرد گروہ قرار دینے کے باجود حالیہ مہینے میں انہیں ماسکو میں مذاکرات کی دعوت دی۔ ایران بھی یہی عمل دہرا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایران اس مطلب اپنے مفادات کے تحت اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دے رہا ہے۔ پس اس سارے کھیل میں بھارت ہی واحد ملک بچ جاتا ہے جس کو سرکاری طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے آگے بڑھنا ہے اور حوالے سے بعض خبریں یہ بھی ہیں بھارت نے اس عمل کے لیے غیر سرکاری چینلز استعمال بھی کیے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے دورہ تہران اور ماسکو سے افغانستان کے حوالے سے بھارت کے خدشات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےلیکن یہ بات کہنا انتہائی غیر مناسب ہے کہ شاید ہی اس کے سابقہ پارٹنرز شمالی اتحاد کی تجدید کے لیے متفق ہوئے ہوں۔ ماضی کے برعکس اس وقت ایران اور ماسکو اپنے مفادات کےلیے افغانستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔جن میں روس کو پہلا فائدہ پاک افوز ریلوے معاہدے کا ہے جس پر فروری میں اتفاق رائے ہوا تھا ۔ یہ معاہدہ روس کے اس خواب کی تعبیر ہے جس کے ذیرعے وہ انڈین اوشین تک رسائی حاصل کر لے گا جبکہ ایران چین کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے رستے جڑنا چاہتاہے۔
چین اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے ساتھ روس اورپاکستان کے تعلقات میں بھی بہتری آگئی ہے اور اس پورے خطے میں واحد بھارت ہے جو اکیلا رہ گیا ہے اور اس کی بڑی وجہ اس کی پاکستان اور طالبان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنا ہے۔ بھارت کی اسی ضد کی وجہ سے ہی بھارت کابل اور طالبان مخالف پراکیسز کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور اسلحے کی یہ فراہمی ٹرانس ایرانی راہدری کے ذریعے کی جارہی اور اس بات کا علم نہیں ہے تہران کو اس فراہمی کا علم ہے یا نہیں۔ ممکن ہے کہ اس وقت نئی دہلی اس حکمت عملی کو اپنے لیے بہتر سمجھ رہا ہے مگر یہ اس کے طویل مدتی مفادات کے لیے سود مند نہیں۔
امریکی، ایرانی اور خاص طور پر روسی حمایت کے بغیر بھارت کسی طور پر بھی افغانستان کی صورتحال تبدیل نہیں کر سکتا۔ بھارت زیادہ سے زیادہ ڈرامائی طور پر اپنے جنگی جہاز بھیج کر غنی حکومت کی مدد کر سکتا ہے تاہم اس کے لیے بھی اسے ایران کی اجازت درکار ہوگی جو کہ موجودہ صورتحال میں شاید ہی ایران دے۔ اگر بھارت اپنے طور پر عمل کرتا ہے تو اس کا خراب امیج مزید خراب ہوگا اور اس پر دہشت گرد ریاست کا لیبل لگ جائے گا۔ ان وجوہات کی بنا پر یہ بات ناممکن دکھائی دیتی ہے کہ افغان خانہ جنگی میں 1990 والی پراکسیز دوبارہ زندہ ہوگیں تاہم اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ بھارت کابل کو فوجی امداد دینا بند کر دے گا۔