وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کیس میں نتیجے کے قریب پہنچ چکے ہیں، تاہم تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے افغان سفیر اور ان کی صاحبزادی کا تعاون درکار ہے۔ ‘افغان سفیر کی بیٹی کی تسلی کے مطابق ایف آئی آر درج کی گئی، افغان سفیر کی بیٹی جن ٹیکسیوں میں بیٹھی ان کے ڈرائیورز کے بیانات ریکارڈ کیے، 700 گھنٹوں کی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا اور 250 کے قریب افراد سے پوچھ گچھ کی گئی’۔ انہوں نے کہا کہ ‘تاہم اب ہم نتیجے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے افغان سفیر اور ان کی صاحبزادی کا تعاون درکار ہے اور ہم نے فون ڈیٹا کی جو رسائی مانگی ہے وہ ہمیں فراہم کی جائے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم کچھ پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتے اور نہیں چاہتے کہ پاکستان کے مخالفین اس معاملے کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کریں اور افغانستان اور پاکستان کے تاثر کو متاثر کریں’۔
ٓوزیر خارجہ نے یہ دعوٰی بھی کیا ہے کہ حکومت پاکستان اس بارے میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھے گی۔ گویا ابھی کچھ اور بھی ہے جس کا راز کھلنا باقی ہے۔ حالانکہ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے پاکستان کے خلاف بھارتی ’ہائیبرڈ وار فئیر‘ کی تفصیلات بتا کر اپنے تئیں سارے راز کھول دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی عناصر سوشل میڈیا پر افغان سفیر کی بیٹی کی غلط تصاویر اور بے بنیاد معلومات عام کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی حوالے سے انہوں نے یورپئین یونین کے بھارتی ’ڈس انفو لیب‘ اسکینڈل کا حوالہ بھی دیا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارتی نیوز نیٹ ورک کس طرح پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں ملوث رہے ہیں۔
یہ معاملہ قابل فہم ہے کہ بھارت عالمی اداروں میں بھی پاکستان کے خلاف سرگرم رہتا ہے اور سوشل میڈیا کو بھی پاکستان کی شہرت خراب کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایسی معلومات نہیں ہیں جن کے لئے معید یوسف کو چارٹوں اور ماضی کی تحقیقاتی رپورٹس کے حوالے سے ایک ایسی پریس کانفرنس میں گفتگو کے لئے بلایا جاتا جو بنیادی طور پر ایک سفیر کی بیٹی کے اغوا اور تشدد کے افسوسناک واقعہ کی تفصیلات بتانے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ بظاہراس موقع پر معید یوسف کی بات چیت کا مقصد اس تاثر کو تقویت دینا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی بھی پاکستان دشمنوں کا آلہ کار بنی ہوئی تھی اور اس نے خود اپنے اغوا اور تشدد کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔ یعنی پاکستانی حکام ایک ٹھوس جرم کی بنیاد سے انکار کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وزیر خارجہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام آباد میں افغان سفیر اور ان کے عملے کی حفاظت کی جائے گی۔ پاکستان اس حوالے سے ہر قسم کا تعاون فراہم کرے گا۔
اس پریس کانفرنس کی وجہ تسمیہ جاننے سے پہلے اس خبر کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ ’ پاکستان اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کرے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ دونوں قوموں کے درمیان نفرت میں اضافہ کی ایسی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہو‘۔ گویا اس مخصوص واقعہ میں کابل حکومت اور طالبان کا مؤقف یکساں ہے۔ یعنی افغان سفیر کی بیٹی کے خلاف ایک سنگین جرم سرزد ہؤا جس کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمی اور نفرت میں اضافہ ہو گا۔ اس صورت حال میں جب حکومت پاکستان کی نمائیندگی کرنے والی اعلیٰ قیادت ایک پریس کانفرنس میں متاثرہ لڑکی کو ’جھوٹا‘ قرار دیتے ہوئے واقعہ کی نوعیت سے انکار کر رہی ہو اور اس کے ساتھ ہی قومی سلامتی کے مشیر بھارتی پروپگنڈا کا تفصیل سے ذکر کریں تو منظر پر ایک ہی تصویر ابھرتی ہے کہ اس واقعہ کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ یہ بھارت کی سازش اور پروپیگنڈا ہے تاکہ پاکستان کو بدنام کیاجاسکے۔
اسی طرح کے ایک بیان میں پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی کا کیس حکومت لڑے گی لیکن ایک کیس کی بنیاد پر افغان سفیر کو نہیں جانا چاہیے تھا، چاہتے ہیں افغان سفیر خود تحقیقات کا حصہ بنیں، ہم نے واقعے کی ایف آئی آر خود درج کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی والا واقعہ ہماری تفتیش کے مطابق اغوا کا کیس نہیں، ہم نے افغان سفیرکی بیٹی سے متعلق فوٹیجز وزارت خارجہ کو دی ہیں، افغان سفیر کی بیٹی نے پورے سفر کے دوران انٹرنیٹ استعمال کیا، افغان سفیر کی بیٹی سے متعلق چاروں ٹیکسی مالکان تک پہنچے ہیں، چاروں ٹیکسی ڈرائیور محنت کش مزدور ہیں۔ْ
اگر پاکستانی حکام کے بالواسطہ بیان کو درست مان لیا جائے کہ سلسلہ علی خیل کا بیان اور الزام غلط ہے اور وہ 16 جولائی کو اسلام آباد اور راولپنڈی میں اپنی مصروفیات کی ساری تفصیلات نہیں بتا رہی جبکہ سی سی ٹی وی کیمروں نے اس کا ’جھوٹ ‘ پکڑ لیا ہے۔ کسی دوسرے ملک کے سفیر کی بیٹی کے معاملہ میں غلط بیانی کا انکشاف ہونے کے بعد کیا شفاف اور مناسب ترین سفارتی طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ ملکی قیادت پریس کانفرنس میں اس ’جھوٹ‘ کا راز فاش کرے اور افغانستان کی حکومت پر واضح کرے کہ یہ ہتھکنڈے دراصل ’را‘ کی منصوبہ بندی ہیں۔ اس لئے افغان حکومت کو متنبہ رہنا چاہئے اور پاکستان کی باتوں کو درست مان لینا چاہئے۔
تاہم پاکستان کو بھی چاہیے تھا کہ وہ یہ معاملہ اندرون خانہ طے کرتی اور افغان سفیر کی عزت رکھتے اس معاملے کو ان کے ساتھ اندرون خانہ حل کر لینا چاہیے تھا۔