مسلم لیگ (ن) نے آزاد جموں و کشمیر کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیاب کو 2018 کا ”ری پلے“ قرار دے دیا ہے آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تھی غیر سرکاری اور غیر حتمی انتخابی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 25، پیپلز پارٹی نے 10 اور پاکستان مسلم لیگ (ن) 6 حلقوں میں کامیابی حاصل کی ہے. اس کامیابی پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ کشمیر انتخابات میں تحریک انصاف کی شاندارکامیابی عام آدمی کے وزیراعظم عمران خان پرغیرمتزلزل اعتماد کا اظہار ہے خیال رہے کہ پی ٹی آئی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار میں آئی جس کے بارے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ 2018 کے انتخابات میں غیرمعمولی دھاندلی کی گئی. فواد چوہدری کے ٹوئٹ کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے جواب دیا کہ 25 جولائی 2021 درحقیقت 2018 کا ری پلے تھا، عام آدمی کا رزلٹ آنے تک مسلم لیگ (ن) آگے تھی اور رزلٹ رک جانے کے بعد ووٹ چور آگے ہوگئے انہوں نے کہا کہ عام آدمی کے ووٹ سے بنتے تو سچ میں ہمیں خوشی ہوتی اور آپ کو مبارک بھی ضرور دیتے، عام آدمی کشمیر فروشوں کو ووٹ نہیں دیتے.
مریم نواز کے الزامات میں کوئی حقیقت ہو یا نہ مگر اس بات میں حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر میں الیکشن کمیشن ہرگز آزاد نہیں ہے اور اس کا ثبوت ہم نے متعدد مواقع پر دیکھا ہے ۔ علی امین گنڈا پور نے آزاد جموں و کشمیر میں جس طرح کی زبان استعمال کی اور پھر کہا کہ الیکشن کمیشن کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہاں الیکشن کمیشن کس قدر آزاد تھا۔ اور جہاں الیکشن کمشین آزاد نہ ہو وہاں شفاف انتخابات ہمیشہ سے سوالیہ نشانات ہی ہوتے ہیں اور پھر جو پارٹی مرکز میں ہو اسی پارٹی کی حکومت ہی آزاد کشمیر میں بنتی ہے کیونکہ آزاد کشمیر کی حکومت درحقیقت اسلام آباد سے ہی چلتی ہے وگرنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ آزاد کشمیر میں کوئی کام ہوں۔ اس لیے لوگوں نے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیے۔ تاہم اگر انتخابات مکمل شفاف ہوتے تو تحریک انصاف کو کبھی بھی اکثریت نہ ملتی۔ اب تحریک انصاف مکمل طور پر اکثریت میں ہے۔ اگر شفاف انتخابات ہوتے تو پھر تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی یا کسی اور جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑتی۔
تاہم دھاندلی کی کچھ خبریں گردش بھی کر رہی ہیں کہ کہیں کہیں انتخابات روکے گئے اور کہیں نتائج کو روکا گیا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر یقینی طور پر تحریک انصاف پانچ چھ سیٹیں ایسے نکال کر لے گئی ہے۔ خیر اگر حقیقت پسندی اور تاریخ کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف کو ہی یہ انتخابات جیتنا تھا۔ تاہم ن لیگ کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے بھی پیچھے رہ گئی ہے؟ سوال یہ ہے کہ ن لیگ آزاد کشمیر میں حکومت کر کے بھی تیسرے درجے کی پارٹی بن گئی ہے۔ تاہم اس انتخابات میں جو ووٹ کاسٹ ہوا ہے وہ تحریک انصاف کو 32 فیصد ووٹ ملا ہے جبکہ ن لیگ کو 25 فیصد ووٹ ملا ہے۔ حالانکہ ماضی میں آزاد کشمیر میں جو بھی پارٹی جیتی ہے اس کا ووٹ 40 فیصد رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ن لیگ اس 25 فیصد ووٹ کو سیٹوں میں ٹرانسلیٹ کیوں نہیں کر سکی؟
ن لیگ کی انتخابی مہم کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ مسلم لیگ ن کی پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف صاحب بھی پاکستان میں موجود تھے مگر انہوں نے سوائے ایک آدھ جلسے کے انہوں نے کسی جلسے سے خطاب نہیں کیا اور نہ ہی وہ وہاں تشریف لے کر گئے ہیں جبکہ یہ حالت حمزہ شہباز کی بھی تھی کہ وہ بھی اس انتخاب میں چپ سادھے بیٹھے رہے۔ ایک پارٹی کے صدر کی ایک اہم انتخاب میں پارٹی مہم میں حصہ نہ لینا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ ٹھیک ہے کہ لوگ زیادہ تر مریم کو سننے اور دیکھنے گئے تھے مگر پھر بھی شہباز شریف کی پارٹی میں اپنی ایک حیثیت ہے اور اس مہم میں ان کی مریم کے ساتھ عدم موجودگی نے بھی ن لیگ کے ووٹرز کے ذہنوں میں بہت سارے سوالیہ نشانات کھڑے کیے ہیں۔ اگر شہباز شریف بھی اس انتخاب میں مریم نواز کے ساتھ ہوتے تو شاید ن لیگ تیسرے درجے کی پارٹی کی بجائے کم از دوسرے درجے کی پارٹی ضرور بن جاتی۔ مگر یہ بھی ممکن ہو کہ ن لیگ نے شاید مریم کو آگے لانے کے لیا ایسا کیا ہو۔ تاہم بات یہ ہے کہ انتخابات میں سوائے جلسوں اور تقاریر کے علاوہ اور بھی بہت سارے معاملات ہوتے ہیں اور شہباز شریف ایک اچھے ایڈ منسٹریٹر ہیں اگر وہ ایڈمنسٹریشن کو سنبھال لیتے تو پھر ن لیگ کو کافی حد تک سہارا مل جاتا۔ تاہم ن لیگ کی شکست اس کےلیے سوالیہ نشان اس لیے ہے کہ وہ اس وقت آزاد جموں و کشمیر میں تیسرے نمبر کی پارٹی بن کر ابھری ہے اور یہ پیٹرن اگر پاکستان میں عام انتخابات میں رہا تو ن لیگ کا وجود پاکستان میں بھی کہیں نہیں ملے گا۔