فوزیہ یوسف عدن صومالیہ کی سیاسی تاریخ میں داخل ہونے والی پہلی مسلمان خاتون ہیں جنہوں نے صومالیہ کی سیاسی روایات کو توڑ کر سیاست میں قدم رکھا ہے۔ وہ صومالیہ کی پہلی خاتون صدر کی طرح صومالیہ کی تاریخ میں اہم سیاسی شخصیت بن کر ابھرنا چاہتی ہیں۔ فوزیہ یوسف نے بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے میں ان سے بخوبی آگاہ ہوں اورمجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ ان کے خاتمے کے لیے کہاں سے آغاز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری طرح کی خاتون جو کہ تجربہ کار ہیں اور مسائل کا ادراک بھی رکھتی ہیں انہیں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے۔
ایک سفارت کار کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے ، وہ بچپن سے ہی سیاست کے بارے میں جانتی ہیں ۔ ان کے والد حاجی یوسف عدن عرب دنیا میں صومالیہ کی نمائندگی کرنے والے پہلے سفارت کار تھے اور انہی کی وجہ سے فوزیہ یوسف سیاست میں دلچسپی لینے لگیں۔ فوزیہ نے اس بات کا اعتراف بھی کیا وہ اپنے والد سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ صومالیہ کی سرزمین پر پیدا ہونے والی ایڈم نے اپنی سکول اور کالج کی تعلیم سوڈان سے حاصل کی جہاں ان کے والد سفارتی مشن پر تھے ۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ سفارت کار بن گئیں ۔ واشنگٹن ڈی سی میں صومالی سفارت خانے میں کام کرتے ہوئے انہوں نے جان ہاپکن سکول آف ایڈوانشڈ سٹڈیز میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور 1979 میں بین الاقوامی پبلک پالیسی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
اس دوران انہوں نے ابوبکر محمد لبان سے شادی کر لی جو کہ نہ صرف سفارت کار تھے بلکہ صومالی فوج میں جنرل بھی تھے ۔ ان کے تین بچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ماسکو اور واشنگٹن میں مختلف عہدوں پر کام کیا اور پھر برلن جرمنی میں صومالی سفارت خانے کی سربراہ بھی رہی لیکن اس کے بعد میں نے استعفٰی دے دیا اور پھر اقوام متحدہ کے افریقہ کے ملک ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں معاشی کمیشن میں تعینات ہوگئی۔ عدن نے اس وقت سفارت کاری کو خیرباد کہہ دیا جب 1998 میں صومالیہ میں پنٹ لینڈ صومالی لینڈ تنازع شروع ہوا۔ اقوام متحدہ میں بطور آفیسر انہوں نے اس تنازع کو قریب سے دیکھا جو کہ بعد میں دونوں کے مابین ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ ایڈم کو یقین ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی این جی او صومید جس کی بنیاد انہوں نے 1990 میں تعلیمی مقاصد کے لیے رکھی تھی وہ صومالیہ کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
صومالی لینڈ میں مسلح تنازع نے عدن کے سیاسی کردار میں تیزی سے اضافہ ہوگیا۔ انہوں نے فوری طور پر تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کیا اس لیے انہوں نے ایک سیاسی جماعت این بی ڈی ( امن، جمہوریت، اور خوشحالی پارٹی ) کی بنیاد رکھی اور 2010 میں صومالیہ کے صدر کے لیے انتخابات میں حصہ لیا۔ تاہم اس وقت کے صدر محمد سیلیانو نے اس جماعت کو غیر مستحکم کر دیا۔ انہوں نے ٹی وی چینلز بند کر دیے اور یونیورسٹی کو قومیالیا۔ ایڈم کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان کے سیاسی کردار کو روکنے کی کوشش کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک عورت سے خوفزدہ تھے وہ مجھے اپنی سیاست کے لیے ایک خطرہ سمجھتے تھے۔
عدن نے یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے ساتھ مل کر اپنے حقوق کی سلبی کے خلاف احتجاج شروع کیا جس پر انہیں قید کا سامنا کرنا پڑا۔ اعدن کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھ سمیت 12 لوگوں کو جیل میں بند کر دیا اور پھر مجھے رہا کر دیا ۔ اس قید کا مقصد مجھے خوفزدہ کرنا تھا۔ 2012 میں جب حسن شیخ محمد صومالیہ کے صدر منتخب ہوئےتو فوزیہ عدن کو پہلی خاتون وزیر خارجہ تعینات کر دیا گیا اور بعد میں وہ ملک کی نائب وزیر اعظم بن گئی۔ عدن کی تعیناتی حکومت کا دلیرانہ قدم تھا جس سے ملک میں مردانہ حاکمیت کا خاتمہ ہوا۔ تاہم صنفی امتیاز کی وجہ سے ان کو حکومت میں بہت ساری مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ عدن کا کہنا تھا کہ صومالی مرد ایک عورت کی قیادت کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے سوائے چند ایک کے جبکہ دیگر نے اس کی سخت مخالفت کی۔
ماضی پر نگاہ دوڑاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ان تمام مشکلات نے انہں بہت مضبوط بنایا۔ اب چونکہ صومالیہ صدارتی انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور اکتوبر میں انتخابات کا انعقاد ہونا ہے تو عدن اس وقت صدارتی امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنا چاہتی ہیں ۔ اس سال وہ واحد خاتون صدارتی امیدوار ہیں جو کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہرروز بہت ساری مائیں الشباب کے ہاتھوں اپنے بچے کھو رہی ہیں ۔ یہ سب مجھے افسردہ کر دیتاہے ۔ لوگ اضطراب کا شکار ہیں ۔وہ امن چاہتے ہیں اور میں کہہ سکتی ہوں کہ مجھے اس مرتبہ مرد اور عورتوں دونوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ان کے لیے امید افزا ہے ۔ اگر میں جیت گئی تو میں صومالیہ کو تبدیل کرنے اور اس کو ترقی یافتہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کروں گی۔ اور اگر مجھے شکست ہوگئی تو میں سمجھوں گی کہ میں نے کوشش کی اور دیگر خواتین میری پیروی کر سکیں گے یقینا ان میں سے کوئی نہ کوئی تو کامیاب ہوگی۔