آوکس بحران کے دوران چین اور آسٹریلیا کے مابین بڑھتے ہوئے تناو نے دنیا کی توجہ دونوں ممالک کی بحری قوت کی طرف مبذول کر لی ہے۔ نیول یا بحری قوت کوئی ہزار سال سے بہت موئثر قوت مانی جاتی ہے۔سمندروں پر اقتدار اور کھلی چھٹی کسی بھی ملک کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے پانیوں سے نکل کر بلا خوف وخطر کہیں بھی جاکر اپنے مخالف کیمپ کے ملک پر حملہ آور ہو سکے۔ اس لیے یہی قوت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ عالی قوت کا حامل کون سا ملک ہے۔امریکہ، برطانیہ اور روس پر مشتمل یہ سہ فریقی اتحاد چین کے لئے بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہےاور چین نے اسے سرد جنگ سے تعبیر کیاہے اور اس کو انڈو پیسفک خطے میں امن کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
اس معاہدے کے تحت امریکا نیوکلر توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کی ٹیکنالوجی برطانوی اشتراک سے آسٹریلیا کو منتقل کرنے جا رہا ہے تاکہ آسٹریلین نیوی علاقے میں سمندری دفاع سے آگے بڑھ کر حملہ کرنے کی حامل نیوی بن جائے۔اس سے پہلے امریکا نے یہ ایڈوانس ٹیکنالوجی 1958میں صرف ایک بار اپنے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ کو دی تھی۔چین اس معاہدے کو سرد جنگ میں واپسی کی ذہنیت سے تعبیر کرتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے چینی حکومت اس حوالے سے درست ہے۔ آوکس معاہدے کا مطلب آسٹریلیا کی مدد سے اس خطے میں امریکہ اور برطانیہ کی موجودگی ہے جس سے سیکورٹی کے خدشات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ یورشیا گروپ کے تجزیہ نگار علی وائیں کے مطابق آوکس معاہدے کے بعد طاقت کے توازن کے لیے مقابلے میں مزید اضافہ ہوگا۔
حالیہ پیش رفتوں نے چین اور آسٹریلیا کے مابین بحری قوتوں کا تقابل شروع کر دیا ہے۔ پینٹا گون کی 2020 کی رپورٹ کے مچابق دنیا کی تیسری بڑی فوج رکھنے والا چین 777 فلیٹس کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت ہے۔ چین کے پاس 350 کشتیاں بشمول 130 سطح پر لڑنے والے بحری جنگی جہاز بھی موجود ہیں۔ چین کے پاس 50 ڈسٹرائیر ، 72 کارویٹس اور 123 پیٹرول ویسلز کے علاوہ 36 مائن وارفئیر بھی موجود ہیں۔ چین کے پاس 79 سب میرینز کی صلاحیت بھی موجود ہے جس کی وجہ سے چین دنیا کی نمبر بحری قوت ہے۔ چینی نیوی نے گزشتہ دہائی کے دوران 12 نیوکلیر سب میرینز بھی تیار کی ہیں۔ چین کی جن کلاس سب میرینز بھی شامل ہیں جو کہ بیلسٹک میزائل لانچ کرنے کہ صلاحیت سے مالا مال ہیں اور چین کو نیوکلیر ڈیٹرنس میں سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
آسٹریلین بیڑے
دنیا کی 140 طاقتور افواج رکھنے والے ممالک میں آسٹریلیا 19 ویں نمبر پر ہے جبکہ بحری قوت کے حوالے سے اس کا 47واں نمبر ہے۔ آسٹریلوی بیڑے میں 48 نیول یونٹس ہیں جن میں چھ مائن وارفئیر ، 3 ڈسٹرائیر اور 13 پیٹرول ویسلز شامل ہیں جبکہ آسٹریلیا کے پاس اس کے بیڑے مہں کوئی کارویٹس شامل نہیں ہے۔ آسٹریلوی بیڑے میں چین کی نسبت سب میرینز کی تعداد آدھی ہے جبکہ اس کے پاس کوئی نیوکلیر سب میرہن بھی نہیں ہے۔
اس تعداد کے ساتھ آسٹریلیا چین کے بیڑے کا محض چھ فیصد ہے مگر آوکس معاہدے کے بعد امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو کم از کم آٹھ نیوکلیر پاور سب میرینز فراہم کرے گا۔اس وقت تک دنیا میں عمومی طور پر تین قسم کی آبدوزیں پائی جاتی ہیں۔ایک تو ڈیزل سے چلنے والی سادہ آبدوزیں ہیں جو میزائل سے لیس ہوتی ہیں ، دوسری قسم کی آبدوزیں چلتی تو ڈیزل سے ہیں لیکن یہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہوئے بہت بڑے پیمانے پر تباہی لا سکتی ہیں۔تیسری قسم کی آبدوزیں ایٹمی ایندھن یعنی نیوکلر توانائی سے چلتی ہیں اس لیے یہ ایک بہت لمبے عرصے تک زیرِ آب رہ سکتی ہیں۔یہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھی ہو سکتی ہیں ایسے میں یہ بہت تباہ کن بن جاتی ہیں۔ہر آبدوز کو خوراک،پانی ختم ہونے پر سطحِ آب پر ابھرنا ہوتا ہے۔
ایٹمی ایندھن سے چلنے والی آبدوزوں کو بھی خوراک اور پانی ختم ہونے پر باہر آنا ہوتا ہے۔ سطحِ آب پر ابھرتے وقت ان کو بآسانی تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ایٹمی ایندھن سے چلنے والی آبدوزیں چونکہ بہت لمبے عرصے تک زیرِ آب رہ سکتی ہیں اس لیے ان کو ڈھونڈھنا کافی مشکل ہوتا ہے۔