انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے جاری پنڈورا پیپرز میں وزیراعظم عمران خان کی ٹیم کے کھلاڑیوں کا نام بھی شامل ہے۔ پنڈورا پیپرز میں وزیرخزانہ شوکت ترین کی آف شور کمپنی جبکہ وفاقی وزیر مونس الٰہی اور سینیٹر فیصل واوڈا کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں۔پینڈورا پیپرز میں وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار اور وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی وقار مسعود کے بیٹے کا نام بھی فہرست میں موجود ہے. اس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت پینڈورا پیپرز لیکس میں نامزد کیے جانے والے تمام شہریوں سے متعلق تحقیقات کرے گی۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے مطابق زمان پارک 2 کے ایڈریس پر لاک گیٹ اور ہاک فیلڈ نامی دو آف شور کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ جب اس بارے میں تحقیقات کی گئیں تو یہ بات سامنے آئی کہ زمان پارک میں ایک ہی پتے کے دو مکان موجود ہیں جن میں سے ایک وزیر اعظم عمران خان کے نام پر ہے جب کہ دوسرے مکان میں فریدالدین رہائش پذیر ہے۔آف شور کمپنیاں بھی فریدالدین کی ملکیت ہیں تاہم ایڈریس ایک ہی ہونے کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہوئی۔ فریدالدین کا کہنا ہے کہ اس نے لاک گیٹ نامی آف شور کمپنی 2008 میں بنائی تھی جب کہ ہاک فیلڈ لمیٹڈ کمپنی اس نے اپنے دوست کے نام پر قائم کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ’میرا اور عمران خان کا برکی برادری سے تعلق ہے ۔ ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، عمران خان سے وزیراعظم بننےکے بعد ملاقات نہیں ہوئی، آف شورکمپنی میری ہے اور اس کا وزیراعظم عمران خان سے کوئی تعلق نہیں ہے، زمان پارک میں دو گھرایسےہیں جن کا ایڈریس ایک ہی ہے۔
یاد رہے کہ یہ رپورٹ بین الاقوامی صحافیوں کی غیرسیاسی تنظیم ’انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘ نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہے۔ اس میں 200 ممالک کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ ایک کروڑ بیس لاکھ دستاویز دیکھی گئی ہیں جن کا ڈیٹا تین ٹیرابائٹ کے برابر بنتا ہے۔ رپورٹ میں اثاثے جمع کرنے ، انہیں پوشیدہ رکھنے یا ٹیکس چوری سے دولت جمع کرنے کا تفصیلی احوال بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ آف شور کمپنیاں اور اثاثے بنانا غیرقانونی نہیں لیکن پینڈورا پیپرز میں بطورِ خاص ایسے معاملات پر زور دیا گیا ہے جن میں دولت کو ان کے اپنے ملک میں ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ان تحقیقات دنیا بھر کے 330 حکومتی اہلکار اور سیاستداں شامل ہیں جبکہ فوربس کے تحت 130 ارب پتی افراد، مشہور کھلاڑی، فنکار، اسلحہ فروش اور منشیات کے اسمگلر بھی شامل ہیں۔ اس تحقیقات میں 117 ممالک کے 600 صحافیوں نے اپنا تحقیقاتی کردار ادا کیا ہے۔
متعدد ٹوئٹ پیغامات میں پنڈورا پیپرز میں کئے جانے والے انکشافات پر وزیر اعظم کی یہ تشویش اس وقت زیادہ وزنی محسوس ہوتی اگر ان کا پنا دامن صاف ہوتا اور وہ اپنی کابینہ اور پارٹی کے اعلیٰ مناصب پر فائز لوگوں کا نام ان دستاویز میں آنے پر فوری طور سے ان سے قطع تعلق کا اعلان کرتے ۔ اور وزیر اعظم کے ٹوئٹ کی بجائے ، باقاعدہ حکومتی اعلان سامنے آتا کہ حکومت، پارٹی اور سرکاری عہدوں پر فائز ایسے تمام لوگوں کے خلاف ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کی جائیں گی جن کے نام پنڈورا پیپرز کی دستاویزات میں شامل ہیں۔ اپنے ساتھیوں کا نا م لے کر ان کے خلاف تمام حقائق منظر عام پر لانے کا اعلان کرنے کی بجائے عمران خان اپنا مخصوص سیاسی ہتھکنڈا بروئے کار لاتے ہوئے ، دنیا کے ممالک سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے میں مدد کریں۔ کیوں کہ وہ گزشتہ بیس سال سے اس معاملے پر کام کررہے ہیں اور اب اس بارے میں دستاویزی شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔
عمران خان نے اپنے سیاسی کیرئیر کی بنیاد ہی مخالفین کی کرپشن کو بنایا تھا۔ وہ الزام تراشی کی سیاست کی وجہ سے ہی اسٹبلشمنٹ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کیوں کہ اس ملک میں سیاسی عمل کا راستہ روکنے کے لئے روز اول سے سیاست دانوں کی بدعنوانی کو تمام قومی مسائل کی جڑ قرار دیا گیا تھا۔ یکے بعد دیگرے اس ملک پر حکمرانی کرنے والے تمام فوجی جرنیلوں نے اسی قسم کے دعوے کئے تھے جو اس وقت عمران خان کا تکیہ کلام ہیں ۔ پھر وقتی ضرورت کے تحت اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لئے ایسے ہی سیاست دانوں کا سہارا بھی لیا گیا.جس کی حالیہ مثال ابھی بھہ سامنے ہے اور ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ پس یہ بات طے ہے کہ اس مرتبہ پنڈورا پیپرز کے تحت کسی کے خلاف بھی شاید ہی کارروائی ہو۔ کیونکہ ماضی میں عمران خان نے چینی کمیشن پر بڑا واویلا کیا تھا مگر ہوا کچھ نہیں، اسی طرح پیٹرولیم مافیا کے خلاف بڑے بلند وبانگ دعوے کیے گئے تھے مگر ہوا کچھ نہیں۔ سو اس مرتبہ بھی کچھ ہونا غیر ممکن ہے کیونکہ اس میں عمران خان کے چہیتے وزراء اور ریٹائرڈ جرنیل شامل ہیں۔