الجزائر نے اپنی فضائی حدود فرانسیسی فوجی طیاروں کے لیے بند کر دیں۔ دوسری طرف فرانسیسی فوج نے اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے، جس کے بعد سے فرانس اور الجزائر کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوگیاہے۔ یہ فیصلہ فرانسیسی صدر عمانویل میکروں سے منسوب ایک متنازعہ بیان کے بعد آیا ہے جسے الجزائر نے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ الجزائر جمہوریہ کی ایوان صدر نے ایک بیان میں کہا ہے فرانسیسی صدر سے منسوب بے بنیاد بیانات کوالجزائر اپنے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہوئے پر واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔ فرانسیسی اور الجزائر میڈیا رپورٹس کے مطابق ، میکرون نے الجزائر کی جنگ آزادی میں شخصیات کی اولاد کو بتایا کہ ملک پر ایک "سیاسی عسکری نظام” کا راج ہے جس نے اپنی تاریخ کو "مکمل طور پر دوبارہ لکھا” ہے۔ فرانسیسی صدر نے دعویٰ کیا کہ الجزائر کا نظام "تھکا ہوا” ہے ، یہ کہتے ہوئے کہ ہراک۔ احتجاجی تحریک جو 2019 میں شروع ہوئی۔ اسے مزید کمزور کر دیا. انہوں نے مزید کہا کہ ان کا صدر عبدالمجید ٹیبون کے ساتھ اچھا مکالمہ ہے ، اور مزید کہا ، "لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک ایسے نظام میں پھنس گئے ہیں جو بہت مشکل ہے۔”
میکرون نے شکایت کی تھی کہ الجزائر کی تاریخ کو دوبارہ لکھا گیا ہے جو کہ حقیقت پہ مبنی نہیں ہے بلکہ فرانس کے خلافت منافرت پر مبنی ہے۔ میکرون نے اپنے بیان میں الجزائر پر اپنے قبضے اور نو آبادیات کا تذکرہ نہیں کیا۔ میکرون کے بیانات نے الجزائر کو فوری ردعمل پر مجبور کر دیا۔ الجزائر کے صدر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ فرانسیسی صدر نے اپنے بیان میں نوآبادیاتی دور میں آزادی کی جدوجہد میں جان قربان کرنے والے 36۔5 ملین الجزائر کے شہریوں کی تضحیک کی ہے اور تاحال اپنے بیان کی تردید نہیں کی۔ واضح رہے کہ 1830 میں فرانس نے اپنے سفیر کی تحقیر کا الزام عائد کرتے ہوئے الجزائر پر حملہ کردیا تھا اور 1872 کے دوران مقامی آبادی شدید مزاحمت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
الجزائر کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی
نہ صرف نو آبادیات کے پرانے گناہ بلکہ الجزائر کی تبدیل ہوتی خارجہ پالیسی نے بھی اس تناو میں اضافہ کیا ہے۔ میکرون کو اصل خطرہ الجزائر کی تبدیل ہوتی خارجہ پالیسی سے ہے ۔ فرانس کو الجزائر اور ترکی کے مابین ثقافتی، تزویراتی اور معاشی تعلقات میں تیزی سے اضافے پر خاصی تشویش ہے۔ اپنے متنازعہ بیانات میں میکرون نے سلطنت عثمانیہ کو نشانہ بنایا جو کہ فرانسیسی نو آبادیات سے قبل الجزائر پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ میکرون نے اپنے بیان میں سوال کیا کہ”کیا فرانسیسی نوآبادیات سے پہلے کوئی الجزائر قوم تھی؟”میکرون نے دعویٰ کیا کہ الجزائر کی "فرانسیسی نوآبادیات سے پہلے ایک نوآبادیات تھی” ، جو 1514 اور 1830 کے درمیان ملک میں عثمانیوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔انہوں نے کہا ، "میں اس صلاحیت کو دیکھ کر مسحور ہوں کہ ترکی نے الجزائر کو اس ملک میں جو کردار ادا کیا ہے اور جو تسلط تھا اسے مکمل طور پر فراموش کر دیا ہے۔”
اگرچہ سلطنت عثمانیہ نے 16ویں اور 19ویں صدی عیسوی کے دوران الجزائر پر حکومت کی تاہم استنبول اور الجزائر کے مابین اس دوران کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ دونوں کے قومی ہیرو یکساں تھے جیسا کہ رکن الدین بیبرس جو کہ سلطنت عثمانیہ کا ایک عظیم ایڈمرل تھا۔ فرانس کو یہ خوف ہے کہ الجزائر نے اپنے معاشی اور تزویراتی مفادات کا رخ چین اور ترکی کی طرف موڑ لیا ہے ۔ الجزائر کے پاس پہلے ہی ایک مضبوط فوج موجود ہے اور روس کے ساتھ اس کے بہترین فوجی تعلقات بھی قائم ہیں جس میں اسلحے کی خریدو فروخت بھی شامل ہے۔
نو آبادیاتی ماضی
فرانس نے 1830 میں الجیریا پرحملہ کیا ۔ سترہ سالہ جنگ میں آٹھ لاکھ الجیریوں کو قتل کرکے وہاں اپنی حکومت قائم کرلی اور اُسے اپنی نوآبادی بنا لیا۔ یُوں افریقہ میں فرانس کا باقاعدہ نوآبادیاتی قبضہ شروع ہوگیا۔ اسکے بعدایک سو سال تک فرانس افریقہ میں آگے بڑھتا رہا اور اس نے تمام شمال مغربی افریقہ پر قبضہ کرلیا۔مستند مورخین کے مطابق افریقی ممالک پر قبضہ کرنے کیلیے فرانس نے بیس لاکھ افریقیوں کا خون بہایا۔ افریقہ کے موجود چودہ پندرہ ممالک ماضی میںفرانس کے قبض میں رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میکرون کا یہ بیان ان فرانسیسی الجیرین سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے جو کہ الجیرین مزاحمت کے خلاف فرانس کی طرف سے لڑے تھے۔ اس ملاقات میں میکرون نے ان الجیرین جنہیں حرکی کہا جاتا ہے سے معذرت کی کیونکہ فرانسیسی حکومتوں نے ان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اپنے پیشروں کی طرح میکرون نے الجزائر پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کبھی معافی نہیں مانگی جس کا مطلب ہے کہ فرانس نے کبھی ان مظالم کو تسلیم ہی نہیں کیا۔
فرانسیسی صدر کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں الجزائر میں نوآبادیاتی دور کی زیادتیوں کے حوالے سے سرکاری سطح پر معافی مانگے جانے کے امکان کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے، ”الجزائر پر قبضے یا فرانسیسی حکمرانی کو ختم کرنے والی آٹھ سالہ خونریز جنگ کے حوالے سے نہ تو ندامت کا اظہار کیا جائے گا اور نہ ہی معافی مانگی جائے گی۔‘‘فرانسیسی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب فرانس کے نوآبادیاتی ماضی کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ شائع ہونے والی ہے۔ تاہم صدر ماکروں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرانسیسی رہنما معافی کے بجائے دونوں ملکوں کے مابین مفاہمت کو فروغ دینے کے مقصد کے تحت ‘علامتی اعمال‘ میں حصہ لیں گے۔الجزائر فرانس کی نوآبادی تھا اور وہاں اپنے قبضے کو طول دینے کے لیے پیرس حکومت نے سن 1954 اور 1962 کے درمیان ایک طویل گوریلا جنگ لڑی۔ فرانس نے انیسویں صدی میں 1830ء میں الجزائر پر قبضہ کیا تھا اور یہ قبضہ 132 سال بعد یعنی 1962ء میں ختم ہوا تھا۔ الجزائر کے حکام کے مطابق اس جنگ میں دس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ فرانسیسی مؤرخین کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب رہی تھی۔ ان دونوں ممالک کے مابین چھ عشرے گزرنے کے باوجود تعلقات کشیدہ ہیں۔
الجزائر نے فرانسیسی حکومت سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے ان اقدامات کو ”قتل عام قرار دیتے ہوئے سرکاری سطح پر معافی مانگے۔‘‘ نوآبادیاتی دور کے بعد پیدا ہونے والے ماکروں ایسے پہلے فرانسیسی لیڈر ہیں، جنہوں نے اس قدر کھل کر کہا ہے کہ فرانس معافی نہیں مانگے گا۔ مؤرخین کی رائے میں فرانس کی نوآبادیاتی تاریخ میں الجزائر کی جنگ کی طرح کسی ایک بھی دوسرے واقعے کا اس ملک کی قومی نفسیات پر اتنا گہرا اثر نہیں پڑا۔
آگے کیا ہوگا؟
الجزائر کی تبدیل ہوتی خارجہ پالیسی اور ترکی کا شمالی افریقہ میں مختلف تنازعات میں مثلا لیبیا سے مشرقی بحیرہ روم میں فرانس کے مدمقابل آنے سے فرانس اور الجزائر کے مابین کشیدگی بڑھ گئی ہے کیونکہ الجزائر اس وقت ترکی کے بہت قریب ہوچکا ہے اور دونوں ممالک تزوریراتی، دفاعی اور فوجی معاملات میں بہت قریب دیکھے جارہے ہیں۔ یہ بات کہنا تاحال مشکل ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا تاہم نہ تو فرانس اور نہ ہی الجیریا تناؤ میں اضافے کا متحمل ہوسکتا ہے اور بالاخر دونوں ممالک بات چیت کی طرف ہی جائیں گے۔ دوسری جانب فرانس ساحل میں الجیریا کے بغیر نہیں چل سکتا کیونکہ الجیزیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی مہرہ ہے۔ بالفاظ دیگر الجیریا کی فضائی حدود کا فرانس کے لیے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فرانس کی ساحل تک رسائی ناممکن ہوجائے گی اور اس کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا۔
اس لیے فرانس ممکنہ طور پر مراکش کی فضائی حدود استعمال کرے لیکن فرانس کے لیے مراکش کی طرف سے ساحل تک رسائی آسان نہیں ہوگی ۔ درحقیقت الجزائر دہشت گردی سے لے کر غیر قانونی تارکین وطن تک کے مسائل میں فرانس کے لیے دیورا بن کے کھڑا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ماکرون کی ہرکیز سے ملاقات کا مقصد صدارتی انتخابات سے قبل الجیریا میں موجود ہرکیز کمیونٹی کے ووٹ کا حصول ہے جو ایک بڑی تعداد میں فرانس میں آباد ہیں۔ دوسری جانب الجزائر بھی تناؤمیں مزید اضافہ نہیں چاہتا کیونکہ الجزائر جانتا ہے کہ اس وقت شمالی افریقہ کی موجودہ صورتحال میں زیادہ دشمنیاں نہیں مول لی جائی جا سکتیں۔