قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کے جنوبی پنجاب کے دورے کے موقع پر کئی اہم سیاسی رہنماؤں نے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی۔ حمزہ شہباز جنوبی پنجاب کے دورے پر ہیں، اس موقع پر مختلف سیاسی رہنماؤں نے پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ راجن پور سے سابق ڈپٹی اسپیکر شیرعلی گورچانی پاکستان مسلم لیگ نواز میں شامل ہو گئے جبکہ ملتان سے 3 بار پیپلزپارٹی کے ایم پی اے رہنے والے اسحاق بُچہ نے بھی مسلم لیگ نواز میں شمولیت اختیار کر لی۔ خانیوال سے سابق ایم این اے افتخار نذیر اور ایم پی اے جمیل شاہ نے مسلم لیگ نواز میں شمولیت اختیار کی، مظفر گڑھ سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر اخترعلی گوپانگ بھی مسلم لیگ نواز میں شامل ہو گئے۔ حمزہ شہباز کے دورے کے موقع پر بریگیڈئیر ریٹائرڈ قیصر مہے نے بھی ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔
دوسری جانب ڈاکٹر عامر لیاقت نے اتوار کی دوپہر ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے قومی اسمبلی کی سیٹ سے استعفا دے دیا ہے تو یہ ایک اچنبھے کی خبر ضرور تھی لیکن اس کو بہت سے لوگوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ عامر لیاقت ماضی میں بھی بارہا اپنی سیٹ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں اور خود وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر کے اپنا استعفا واپس لے لیتے ہیں۔ اس بار لیکن کچھ مختلف یہ ہوا ہے کہ انہوں نے پیر کی شام یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ مزید اراکینِ اسمبلی بھی مستعفی ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں جن میں سے ایک کا انہوں نے نام بھی لے دیا۔ عامر لیاقت نے لکھا کہ کراچی سے منتخب رکن اسمبلی جنہوں نے اپنی محنت اور عمران خان کی محبت میں بلاول بھٹو زرداری کو شکست دی انہوں نے بھی قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو لیاری سے شکست دینے شکور شاد وہی رہنما ہیں جن کے لئے اسد عمر نے ‘نر کا بچہ’ کہتے ہوئے تعریفی کلمات کہے تھے جب بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت پر شدید تنقید کی تھی۔ 2018 میں ان کے بلاول کو شکست دینے پر عوام کو بارہا ذوالفقار علی بھٹو کے وہ الفاظ یاد دلائے گئے تھے کہ جس دن لیاری سے پیپلز پارٹی کو شکست ہو گئی، سمجھ لینا پیپلز پارٹی ختم ہو گئی۔ تاہم، 2018 کے انتخابات کے گرد کھڑے ہوئے تنازعے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی کو واقعتاً لیاری سے شکست ہوئی یا یہ سیٹ بھی دیگر کئی سیٹوں کی طرح RTS نظام بند ہونے کا شاخسانہ تھی۔ عامر لیاقت نے مزید لکھا ہے کہ خیبر پختونخواہ سے قومی اسمبلی کے ایک رکن استعفا آج یا کل ارسال کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس رکن قومی اسمبلی کا نام نہیں بتا سکتے۔ اگر یہ انکشافات درست ثابت ہوتے ہیں تو یقیناً پی ٹی آئی کے لئے کسی بڑے دھچکے سے کم ثابت نہیں ہوں گے۔
جہاں ایک طرف لوگ ن لیگ کا رخ کر رہے ہیں اور کوئی لوگ پارٹی کو چھوڑ کر جار رہے ہیں وہیں ایک بڑی اور بری خبر یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 70 ارکان نے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے شرکت نہیں کی۔ ایسے میں پرویز خٹک کی قیادت میں خیبر پختونخوا کے 22 ارکان پر مشتمل نیا گروپ بھی سامنے آگیا جس کو وزیر اعظم نے ملاقات کیلئے طلب کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا گروپ کے ارکان نے ترقیاتی فنڈز نہ ملنے اور گیس سکیموں کا شکوہ کیا۔ اس پر وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے سکیمیں دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس گیس ہی نہیں ہے۔اتحادی جماعت ق لیگ کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے وزیر اعظم سے کہا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو جتنے ارکان آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ان سب کی ضمانتیں ضبط ہوں گی، ارکان اسمبلی سکیموں کے بغیر اور مہنگائی کی صورتحال میں اپنے حلقوں میں کس منہ سے جائیں۔پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بھی شکایات کے انبار لگادیے۔ آفتاب جہانگیر نے کہاکہ ہمیں کہا گیا ہے کہ اگلی دفعہ آپ کی بجائے کوئی اور پارٹی امیدوار ہوں گے ،اگر یہ سچ ہے تو ہمیں وقت پر ہی بتا دیا جائے تاکہ ہم اپنا بندوبست کر لیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ جب سے ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی طرف نرم رویہ اپنانے کا بیانیہ اپنایا ہے تب سے تحریک انصاف میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اب تک تحریک انصاف کے تمام اراکین اس بات پر خوش تھے کہ میاں صاحب ٹکراؤ کی پالیسی کو جاری رکھیں گے اور اسٹیبلشمنٹ اگلے پانچ سال پھر عمران خان کے نام کر دے گی مگر جب سے ن لیگ میں موجود مفاہمتی گروپ کے بیانیے کی جیت ہوئی ہے بہت سارے موقع پرست اراکین دوبارہ ن لیگ میں واپسی کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ مسقتبل قریب میں بہت سارے الیکٹبلز مسلم لیگ نواز کا رخ کریں گے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کو ٹکٹ لینے والا بھی کوئی نہیں بچے گا۔ الیکٹ ایبلز کی ن لیگ کی طرف اڑان سے لگ رہا ہے کہ مقتدر قوتیں اب عمران خان سے پیچھا چھڑانے کے چکر میں ہیں کیونکہ مقتدر قوتوں کے قریبی سیاستدان اسی ہوا کا رخ جان کر اگلی سیاسی جماعت کا انتخاب کرتے ہیں۔ اور لگ یوں رہا ہے کہ مقتدرہ اب کی بار تحریک انصاف کو خیر باد کہنے کی تیاری کر چکی ہے۔