فاطمیہ عہد حکومت چوتھا اور آخری عرب خلافت کا عہد تھا جو کہ 10 سے 12 ویں صدی عیسوی تک قائم رہا۔ دولتِ فاطمیہ یا سلطنت فاطمیہ یا خلافت فاطمیہ خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد 297ھ میں شمالی افریقا کے شہر قیروان میں قائم ہوئی۔ یہ خلافت بحرہ احمر کے مشرق سے مغرب کی طرف بحرہ اوقیانوس تک پھیلی ہوئی تھی جو کہ شمالی افریقہ کا ایک وسیع رقبہ ہے۔ ذیل میں خلافت فاطمیہ کے حوالے سے 9 اہم حقائق ہیں جو اس سے قبل کبھی بیان نہیں کیے گئے۔
1۔ قاہرہ
عباسیوں کے برعکس جنہوں نے بغداد کو دارالحکومت بنایا فاطمیوں نے 969 میں مصر پر قبضہ کرنے بعد قاہرہ کو دارالحکومت چنا۔ جس کے بعد قاہرہ اسلامی دنیا کا ایک اہم ثقافتی مرکز اور تجارتی مرکز بن گیا۔
2. مقدس اباواجداد
فاطمی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی اور امام علیہ السلام کی زوجہ تھیں کے خاندان سے ہونے کا دعوی کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خلافت کا نام فاطمیہ رکھا۔ فاطمیہ شیعہ کی اسماعیلی فرقے کی شاخ سے تھے اور اسی وجہ سے انہیں امام کا درجہ ملا۔
3۔ فن تعمیر
اس دور میں بغداد کا شہر اپنی شان و شوکت اور خوشحالی اور ترقی میں اپنی مثال آپ تھا لیکن فاطمی خلفاء نے بہت ہی کم عرصے میں قاہرہ کو دنیائے اسلام کا ایک عظیم شہر اور عراق کے شہر بغداد کے ہم پلہ بنا دیا. مصر میں فاطمی خلفاء کی ایک یادگار جامعتہ الازہر ہے۔ اس کی تعمیر فاطمی خلیفہ معزالدین باﷲنے شروع کی۔ اس ادارے کی تعمیر کا مقصد بیش رفتہ علوم کی ترویج اور تر قی تھا۔
4۔ احیا
فاطمیہ کے دور کے آرٹ ورک نے نے ماہر کاریگروں کے کام کو بہت ابھارا۔ الفسطاط برتن سازی، گلاس سازی، دھات سازی، پتھروں کے نمونوں ، لکڑی کی پچی کاری اور ہاتھی دانت کے کام کا مرکز بن گیا۔ چینی مٹی کے برتنوں پر چمک سازی جس کی بنیاد عراق میں رکھی گئی تھی مصر اور شام میں اس کا احیا ہوا۔ خلافت فاطمیہ ہے عہد میں ملمع کاری اور لکڑی کی پچی کاری کے علاوہ زیورات سازی کے کام کو بھی بہت عروج ملا۔
5.تعاون
خلافت فاطمیہ نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کیا اور غیر شیعہ فرقوں کے علاوہ یہودیوں، عیسائیوں اور کاپٹس کو بھی مذہبی آزادی دی۔خاص طور پر عیسائیوں کو حکومت میں اعلی عہدوں سے نوازا اور کاپٹس کو حکومت میں اعلی معاشی سطح کے عہدے دیے گئے۔
6۔ فلکیات
اگرچہ اسلامی دنیا کے ابتدائی ایام میں فلکیات کے شعبے میں بہت ساری دریافتیں ہو چکی تھیں اس لیے عہد فاطمیہ میں ہونے والی دریافتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اگرچہ یونس کے بغیر 21ویں صدی کی موجودہ چیزوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ مصر میں پید اہونے والے یونس الصدفی ایک مشہور فلکیات دان تھے جنہوں نے مسلمانوں کے قمری کلینڈر کی تیاری میں کلیدی خدمات سرانجام دیں۔ فاطمیوں کی جانب سے فنڈنگ کی مدد سے یونس نے اپنی کتاب ال زج ال حکیم الکبیر لکھی جس میں سیاروں کی دیگر فلکیاتی اجسام کے ساتھ درست موجودگی اور 30 قمری گرہنوں کا درست تعین کیا۔ یونس کے اعدادوشمار کی وجہ سے ہی آج کی صدی میں سورچ کے طلوع اور غروب ہونے کا درست وقت، قمری گرہن، شمسی گرہن اور مدوجزر کا درست وقت معلوم کیا جاسکا ہے۔
7. ادویات کا انسائیکلو پیڈیا
ابن سینا اپنے وقت کا سب سے مشہور سائنسدان تھا جوکہ 890 میں افشانہ کے ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا جس نے فاطمیہ خلافت کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ ابن سینا نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا تھا اور 15 سال کی عمر میں وہ فزکس اور ریاضی کا ماہر بن چکا تھا ۔ محض اکیس برس کی عمر میں اس نے ادویات کا انسائیکلو پیڈیا لکھا جو کہ یورپ اور ایشیا کے طبی سکولوں میں 500 سالوں تک طب کی مستند کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔ اس کتاب کی پانچ جلدیں ہیں، پہلی جلد عمومی اصولوں، دوسری جلد ادویات، تیسری جلد مخصوص اعضا کی بیماریوں، چوتھی جلد مقامی اجسام کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور پانچویں جلد مرکب ادویات سے متعلق ہے۔
8۔ یونیورسٹی
970 میں جامع الازیر کی بنیاد رکھی گئی جو کہ دنیا کی جامعات میں قدیم ترین اور مصر کی سب سے قدیم جماع ہے ۔ اس یونیورسٹی کو اسلامی تعلیمات کی سب سے بہترین جامع قرار دیا جاتا ہے۔ خلافت فاطمیہ نے اس جامع کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی تکریم کے نام پر تعمیر کیا اور اس کا نام الزہرا رکھا اور جب قاہر شہر کی تعمیر ہورہی تھی تو ایک مسجد جس کا نام جواہر الثقلی تھا وہ تعمیر کی۔
9۔ اسلام کے ستون
انسانی سائنسوں کے اولین ماہر القاضی النعمان نے فاطمیہ خلافت کے لیے اسمعیلی فقہ پر کام شروع کیا اور بہت جلد وہ خلافت فاطمیہ میں قاضی القضا کےعہدے پر پہنچ گیا۔ انہوں نے تاریخ، اسلامی فقہ اور اسلامی مخطوطوں کی تفسیر پر بہت ساری کتابیں لکھیں ۔ ان کی مشہور کتاب ، اسلام کے ستون خلافت فاطمیہ کے لیے قانون کے ضابط کی کتاب بن گئی جس کو اکیسیوں صدی میں بھی نظام انصاف کی بنیاد میں استعمال کیا جاتا ہے۔