ادارہ شماریات نے ملک میں مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی۔ادارہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 1.37 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس سے ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 13.64 فیصدہوگئی جب کہ کم آمدن والے افراد کیلئے مہنگائی کی شرح17.20 فیصد پرپہنچ گئی۔ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں 24 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور 5 اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی جب کہ 22 میں استحکام رہا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آٹے کا 20 کلو کا تھیلا اوسط57 روپے 85 پیسے مزید مہنگا ہوگیا جس سے 20 کلو تھیلے کی اوسط قیمت 1222 روپے7 پیسے ہوگئی۔زندہ مرغی کی فی کلو قیمت میں 15 روپے27 پیسے اضافہ ہوا جس سے قیمت 214 روپے 47 پیسے ہوگئی جب کہ گھی پونے 5 روپے مہنگا ہوا جس سے گھی کی اوسط قیمت 342 روپے 66 پیسے ہوگئی۔ یاد رہے کہ اس وقت ملک میں افراط زر کی شرح دس فیصد سے زیادہ کی سطح پر موجود ہے۔
حال میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمت میں تین روپے فی یونٹ تک اضافہ کیا جا رہا ہے اور اس کے بعد مزید اضافے کیے جائیں گے۔ گیس کی قیمتیں پہلے ہی آسمان کو چھو رہی ہیں اور آنے والی سردیوں میں اس میں مزیدبڑے اضافے کیے جائیں گے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ جہاں روز مرہ کی اشیا کی قیمتوں میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے وہاں اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں سب سے تیز ترین اضافہ ہوچکا ہے، بعض معاشی ماہرین کے مطابق یہ 30 فیصد کے افراط زر سے بھی زیادہ ہے جبکہ حقیقت میں یہ اس سے کہیں بڑا ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سی اشیا کی قیمتیں پچھلے چند ماہ میں دگنی ہو چکی ہیں۔ اس دوران آٹا، گھی، دالیں اور سبزیوں سمیت ہر استعمال کی شے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے یہاں تک کہ ایک روٹی کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہو چکا ہے۔
اس سارے عرصے میں روپے کی قدر میں مسلسل تیز ترین گراوٹ ہو رہی ہے اور وہ ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کی کم ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس گراوٹ میں بھی کمی آنے یا رُکنے کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے بلکہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ آنے والے عرصے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی جس سے ملکی معیشت کے بحرانوں میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث ملک میں ہونے والی تمام تر درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں جس کے باعث صنعتوں کے لیے درکار خام مال سے لے کر اشیائے خورد ونوش تک ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے اثرات پھر عام صارف پر مرتب ہوتے ہیں۔پاکستان اس وقت جہاں ایکسپورٹ کی صنعت کے لیے درکار خام مال بڑے پیمانے پر امپورٹ کرتا ہے وہاں زرعی اجناس کی ایک بڑی تعداد بھی اب امپورٹ ہی ہوتی ہے۔ گندم اور چینی سے لے کر چائے کی پتی تک، عام استعمال کی ہزاروں اشیاء بیرونی ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں جن کے لیے ادائیگی ڈالروں میں کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں درآمدی بل میں سب سے بڑا حصہ تیل کا ہوتا ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کے باعث اس کے تباہ کن اثرات ملکی معیشت پر پڑتے ہیں۔
۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے عوام دشمن اور ظالم حکمران ملکی ترقی کے لیے برآمدات بڑھانے کی بہت سی باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایکسپورٹ کی صنعت سے منسلک سرمایہ داروں کو اربوں روپے کی سبسڈی بھی عنایت کرتے جا رہے ہیں جو ان سرمایہ داروں کی جیبوں میں ہی جاتی ہے اور اس کا انتہائی کم حصہ ہی دوبارہ سرمایہ کاری میں لگتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بوسیدگی اور بربادی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پر اگر ایکسپورٹ بڑھانے کی سنجیدہ کوشش کر بھی لی جائے تو بھی اس کا مطلب خام مال کی بڑے پیمانے پر امپورٹ کی شکل میں ہی نکلے گا اور حتمی طور پر تجارتی خسارہ بڑھے گا۔ یعنی تیار اشیاء ایکسپورٹ کر کے ڈالر کمانے کے لیے جو خام مال امپورٹ کرنا پڑے گا اس کیبعد ڈالروں کی آمدن کم ہو گی جبکہ اخراجات مجموعی طور پر بڑھ جائیں گے اور تجارتی خسارہ بے لگام بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جو ایک طویل عرصے سے اس ملک کی زراعت، صنعت اور معیشت کے دیگر شعبوں کو بتدریج تباہ کرتا جا رہا ہے۔
اس صورتحال میں آنے والے مہینوں میں آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات کلیدی حیثیت کے حامل ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کی خواہش ہے کہ تمام شرائط پوری کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط ہر حال میں وصول کی جائے۔ اس قسط کے اجرا کے بعد ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے بھی قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیں گے اور دیوالیہ پن کی آنے والی بلا پھر کچھ ماہ کے لیے مزید ٹل سکتی ہے۔ اس لیے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے لے کر ٹیکسوں میں اضافے اور نجکاری میں شدت لائی جا رہی ہے تاکہ عوام کی کھال اتارنے کی صلاحیت کا اپنے مغربی آقاؤں کے سامنے بھرپور مظاہرہ کیا جائے اور ان سے داد وصول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی عیاشی کے لیے رقم بھی اینٹھ لی جائے ۔
پچھلے تین سالوں میں ہونے والی مہنگائی پچھلے 70 سالوں میں ہونے والی مہنگائی سے زیادہ ہے۔ جو گھی کا پیکٹ پچھلے 70 سالوں میں 135 روپے تک مہنگا ہوا وہ پچھلے تین سالوں میں بڑھ کر 370 روپے کا ہو گیا ہے۔ ’70 سالوں میں چینی 45 روپے فی کلو تک مہنگی ہوئی لیکن پچھلے تین سالوں میں اس کی قیمت 110 روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو مہنگائی کی وجہ قرار دے کر جان چھڑانا مناسب نہیں ہے۔ معاشی ماہرین کی یہ رائے تھی کہ حالات جیسے بھی ہوں ڈالر 155 روپے سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے۔ 170 روپے تک ڈالر کا چلا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔