قفقاز میں جہاں بہت سارے تنازعات سے بھرے علاقے موجود ہیں وہیں دو شیعہ اکثریتی ممالک ایران اور آزربائیجان کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہورہاہے۔ 700 کلومیٹر طویل مشترک سرحد والے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان رشتے اب تک پرامن اور معمول کے رہے ہیں لیکن حالیہ عرصے میں اس رشتے میں نشیب و فراز نظر آئے ہیں۔ تعلقات میں اس واضح بگاڑ کی کہانی گذشتہ ماہ اس وقت شروع ہوئی جب ترکی اور آذربائیجان نے مل کر ایرانی سرحد سے تھوڑے فاصلے پر مشترکہ فوجی مشق شروع کی۔جس کے جواب میں ایران نے بھی آذربائیجان کے قریب فوجی مشق کا اعلان کیا۔ایران کو آذربائیجان کے مغربی ممالک اوربالخصوص اسرائیل کے ساتھ تعلقات پراعتراض ہے۔اس کی برّی فوج کی مشقوں میں توپ خانے، ڈرونز اور ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا ہے۔
یاد رہے کہ آزربائیجان نے ترکی کے ڈرونز کی مدد سے آرمینیا کو شکست دی تھی جب کہ آزربائیجان کا یہ دعوٰی ہے کہ تہران نے خفیہ طور پر آرمینیا کی مدد کی تھی جو کہ ایک عیسائی اکثریتی ملک ہے۔ آرمینیا کو شکست دیے کے بعد آزربائیجان نے کاراباخ کے علاقے میں تہران کے سپلائی روٹ کو منقطع کر دیا تھا جو کہ ایران کو جنوبی ایشیا کے ساتھ ملا رہا تھا اور اس پر کسٹم عائد کر دیا تھا ۔ گزشتہ ماہ پاکستان، آذربائیجان اور ترکی کی مشترکہ مشقوں سے بھی ایران نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ واضح رہے کہآذربائیجان اور اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں اپنے فوجی اتحاد کو مضبوط کیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے مہیا کردہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل ڈرونز نے آذربائیجان کو گذشتہ سال نگورنو قراباخ کے متنازع علاقے میں آرمینیا کے خلاف جنگ میں مدد دی تھی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی اور آزربائیجان کی مشترکہ مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انقرہ باکو کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ایران کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ باکو کے ساتھ کھڑا ہے ۔ دونوں ممالک میں حالات انتہائی جذباتی ہیں ۔ چند روز قبل ایران کے اس بیان پر کہ آزربائیجان کی فوج ان کے سامنے چند سو ہے، جس پر باکو میں ایرانی سفارتخانے کے سامنے آزربائیجان کے شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جہاں ایک طرف ترکی آذربائیجان کی مشقوں سے تناو میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ان مشقوں کا مقصد یریوان کو سیاسی پیغام بھیجنا ہے کہ وہ آپس میں مل کر بین الاقوامی سرحد پر اپنی حدود سازی کو یقینی بنائیں۔
تجارتی راستے
باکو اور یریوان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کی حدود بندی ترکی اور آذربائیجان کے علاوہ دیگر خطی رہاستوں کے مابین تجارتی رستے کھولنے کے لیے بہت لازم ہے۔یہ بات طے ہے کہ ترکی اور آذربائیجان سرحد بندی کے عمل آگے بڑھانے کے لیے پرجوش ہیں۔ اس کے علاوہ بھی سرحد کی حد بندی نہ صرف باخو اقر استنبول بلکہ باکو اور یریوان کے مابین بھی تجارت اورخطے کی معاشی خوشحالی کے لیے لازم ہے۔ اس حصے میں ایک سٹریٹیجک رستہ جسے زنگزور راہداری کا نام دیا جاتا ہے جو آذربائیجان کے بہت سارے حصوں کو آرمینیا اور صوبہ نخچیوان کے ذریعے ترکی کے بہت سارے حصوں سے ملاتی ہے۔ نخچیوان وہی علاقہ ہے جہاں حالیہ فوجی مشقیں کی گئی ہیں۔ یہ رستہ چونکہ ابھی تک آپریشنل نہیں ہے اس لیے آذربائیجان حالیہ فوجی مشقوں کو آرمینیا کے ساتھ سفارتی آلے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔
ایران ترکی اور باکو کے مابین زنگزور راہداری کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ایران ترکی اور آذر بائیجان کے مابین زمینی تعلق کو آذربائیجان کے ذریعے ترکی کی قسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔جب کہ ترکی اس خطے کو اپنے اباو اجداد کی سرزمین سمجھتا ہے۔ایران کو یہ بھی خطرہ ہے کہ خ کی فتح ایران میں رہنے والے آذری باشندوں کو بغاوت کے لیے ابھار سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہران نے یویران اور ماسکو کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر رکھے ہیں تاکہ ترکی اور آذربائیجان کا رستہ روکا جا سکے۔ ایران کا ایک اور مسئلہ آذربائیجان اور اسرائیل کے بڑھتے تعلقات بھی ہیں۔ایران نے یہ الزام عاید کیا تھا کہ گذشتہ سال آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مسلح تنازع کے دوران میں داعش کے جنگجوؤں کو بھی خطے میں لایا گیا تھا۔ ایران کی برّی فوج کے بریگیڈیئر جنرل کیومارس حیدری کا کہنا تھا کہ’’اسرائیل کے آلہ کاروں کی کھلم کھلا اور خفیہ موجودگی اورعلاقائی ممالک میں داعش کے دہشت گردوں کی نمایاں تعداد میں موجودگی کا امکان اس مشق کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
ایرانی رد عمل
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے حالیہ فوجی مشقوں کے بعد ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں کی جانے والی فوجی مشقیں ہماری خودمختاری کا سوال ہیں۔‘ انھوں نے بیان میں کہا کہ ’ایران اپنی قومی سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘ اس کے بعد خطیب زادہ نے اپنے بیان میں جو کہا اس سے اس کشیدگی کا مفہوم سمجھا جا سکتا ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے اسرائیل کا نام لیے بغیر کہا کہ ’وہ اپنی سرحد کے قریب یہودی حکومت کی موجودگی کو برداشت نہیں کریں گے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے 30 ستمبر کو آذربائیجان کے نئے سفیر سے ملاقات کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ قومی سلامتی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے سرحد پر یہودی حکومت کی موجودگی کو نہیں دیکھ سکتے اور اس کے خلاف کوئی بھی ضروری اقدامات کر سکتے ہیں۔ اسی دوران آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ایران کے سفیر عباس موسوی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ایران کی فوجی مشقیں پہلے سے ہی طے تھیں اور آذربائیجان کے لیے ‘خطرہ’ نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ اسی سال امریکی میگزین فارن پالیسی نے کہا تھا کہ آذربائیجان اور اسرائیل لوگوں کی اُمیدوں سے زیادہ قریب آ چکے ہیں۔ میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کوئی جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اسرائیل آذربائیجان کے ساتھ اس کی فضائی حدود سے متعلق ایک معاہدہ کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران خدشات کا شکار ہے۔ یقینی طور پر ایران یہودی موجودگی اور داعش کی موجودگی کے تدارک کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔