افغانستان میں طالبان کی آمد کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا خوف افغانستان کی شیعہ کمیونٹی کا تحٖفظ تھا۔ یقینی طور پر افغانستان کے شیعہ طالبان کے سابقہ مظالم کو کسی طور نہ بھول پائے ہوں گے اور اگرچہ طالبان نے اس مرتبہ شیعہ کمیونٹی کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے مگر طالبان میں مختلف ہارڈ لائنر دھڑوں کی موجودگی شیعہ کے تحفظ کی ضمانت کیسے ہوسکتی ہےاور یہی ہوا کہ طالبان جنگجوؤں نے 30 اگست کو مرکزی افغان صوبے دائی کنڈی کے گاؤں کاہور میں شیعہ ہزارہ اقلیتی برادری کے 13 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں سے گیارہ افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے اراکین جبکہ دو عام شہری تھے، جن میں ایک 17 سالہ لڑکی بھی شامل تھی۔ افغانستان میں ہزارہ اقلیتی برادری کے اراکین کا قتل طالبان کے افغانستان پر قبضے اور سقوط کابل کے تقریباً دو ہفتے بعد ہوا۔ ایک ایسے وقت پر جب طالبان افغان عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ماضی میں، 90 کی دہائی میں جس طرح حکومت کرتے رپے تھے، اب وہ ایسا نہیں کریں گے اور اپنے رویے میں تبدیلی کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔
افغانستان کی 36 ملین کی آبادی میں سے قریب نو فیصد ہزارہ باشندے ہیں تاہم چاہے وہ افغانستان کی امریکہ کی جانب سے بٹھائی گئی حکومتیں ہوں یا طالبان دور حکومت کو شیعہ ہزارہ کو ہمیشہ سے ایک طرف رکھا گیا ہے اور کسی بھی حکومت نے ان کے تحفظ کے لیے اور انہیں مین سٹریم میں لانے کے لیے کبھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جبرو استبدادکا شکار افغانستان کی شیعہ برادری کو طالبان کے مزید مظالم کا خوف مارے دے رہا ہے۔ ۔ ہزارہ برادری اہل تشیع ہے اور کئی دہائیوں سے افغانستان میں سنی اکثریت کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتی آئی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جب طالبان اقتدار میں آئے انہوں نے ہزارہ براداری پر منظم طریقے سے مظالم ڈھانا شروع کر دیے۔ کٹر سُنی انتہا پسند طالبان کے نزدیک ہزارہ ‘کافر‘ ہیں۔ طالبان نے ہزارہ برادری کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کو جبری طور پر مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا۔ ان حالات کے پیش نظر جس ہزارہ باشندے کو موقع ملا وہ افغانستان سے فرار ہو گیا۔
سنی اکثریت والے ملک افغانستان میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کی اکثریت استحصال کا شکار ہے۔ محض بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے ایک پروپیگنڈا کے ذریعے طالبان یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہزارہ کمیونٹی کی ترقی و خوشحالی پر افغانستان کی معیشت کو آگے بڑھانے کا انحصار ہے۔ ماہرین طالبان کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد دیکھتے ہیں۔ ستم بلائے ستم یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کی شیعہ برادری کو ہزارہ کے ساتھ ساتھ ایک اور دشمن کا خوف بھی کھائے جارہا ہے جس کا نام داعش ہے جس کا ثبوت گزشتہ روز جمعہ کی نماز کے دوران قندوز میں ایک شیعہ مسجد پر ہونے والے خود کش حملے سے لگایا جاسکتا ہے جس میں پچاس سے زائد افراد شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ شدت پسند گروہ جن میں مقامی دولتِ اسلامیہ کا گروپ بھی شامل ہے شیعہ برادری کو پہلے بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔
داعش خراسان کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ سب سےبڑا المیہ یہ ہے کہ جس حکومت نے انہیں تحفظ دینے کا وعدہ کیا ہے وہی ان کے قتل عام اور ان کو بے گھر کرنے میں ملوث ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق گذشتہ ماہ کے اوائل سے اب تک وسطیٰ افغانستان کے صوبے دایکندی کے مخلتف علاقوں سے 22 سو سے زیادہ افراد کو اُن کے گھروں سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ہزارہ برادری کے لوگ یہاں غیرقانونی طور پر رہ رہے تھے، لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے ان خاندانوں کے پاس زمین کی ملکیت کے دستاویزات موجود تھیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بے دخلی کی اس مہم کے نتیجے میں اب تک چار ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ مختلف مقامات سے زبردستی انخلا کے بعد اس خوف میں اضافہ ہوا کہ طالبان ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ملک کی شیعہ ہزارہ اقلیت کو نشانہ بنانے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت کی موجودگی میں جس نے کبھی بھی شیعہ برادری کے لیے دل میں اچھے جذبات نہیں رکھے وہ انہیں داعش سے کیسے تحفظ فراہم کرے گی؟ اس وقت افغانستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے جس کمیونٹی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں وہ شیعہ کمیونٹی ہے ۔ جس کے لیے کہیں بھی سائبان میسر نہیں ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا بین لااقوامی برادری افغانستان کی شیعہ کمیونٹی کے حوالے سے آواز بلند کرے گی؟ افغانستان میں بیس برس کاعرصہ گزارنے کے بعد بھی اگر امریکہ نے شیعہ کمیونٹی کے لیے کچھ نہیں کیا تو مستقبل میں عالمی اداروں سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟