دھوکا دہی اور اخلاقی زوال کے موجودہ دور میں کوئی شخص بھی اخلاقی اقدار اور چند بنیادی اصولوں کو اپنائے بغیر ہرگز ترقی نہیں کر سکتا۔ اسی کے سبب اسلام نے ملازمین اور تجارت کے لییے چند اصول وضع کیے ہیں جن کی پیروی کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اسلام ہمیں یہ ہدایت دیتا ہے کہ ہم اپنے ملازمین اور ورکرز کے حقوق کا خیال رکھیں جیسا کہ باس کو ملازمین پر کسی قسم کی برتری حاصل نہیں اور ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان کے ساتھ منصفانہ سلوک کریں۔ کسی بھی ملازم کو اس کے رنگ، نسل، ذات یا صنف کی وجہ سے امتیاز کا نشانہ نہیں بنا چاہے ۔ ہمارے ملازمین ہمارے مددگاروں کی طرح ہیں۔ ہمیں ان کی ضرورت ہوتی ہے اور بہت سارے معاملات میں ہم ان کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ مساوات اور انصاف سے پیش آنا چاہیے۔
ملازمین سے ان کی استعداد سے زیادہ کام نہیں لینا چاہیے۔ انہیں کام کے لیے محفوظ اور صحت مند ماحول مہیا کریں۔ اگر وہ کام کے دوران زخمی ہوجائیں تو انہیں اس کے عوض معاوضہ ادا کریں۔ ان کی زندگی اور کام کے مابین توازن رکھیں۔ بچوں اور کم عمر افراد کو ملازم نہ رکھیں۔ کام کی جگہوں پر عورتوں کے تحفظ اور ان کے آرام کو ہر صورت یقینی بنائیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کو کام کے لیے ایسا ماحول فراہم کریں جہاں ان کو پردے اور ان کی رازداری کا تحفظ ہوسکے۔ ان کو ایسے کام پر نہیں لگانا چاہیے جو ان کی صنف کے لحاظ سے درست نہ ہو۔ اس کے علاوہ ان کو ان کے بچوں کے لیے بھی فوائد مہیا کیے جانے چاہیں۔
ایک روایت کے مطابق ایک روز امام علی علیہ السلام اپنے ایک ملازم قمبر کے ساتھ اپنے اور اس کے لیے قمیص لینے بازار گئے ۔ مارکیٹ پہنچ کر انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ ان کہ پاس صرف اتنی رقم ہے کہ اس سے ایک اچھی قمیص اور ایک سستی قمیص خریدی جا سکتی ہے۔ اگرچہ امام علی السلام اس وقت اسلامی ریاست کے خلیفہ تھے اور بلند مرتبت تھے پھر بھی انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملازم مہنگی قمیص لے اور وہ سستے والی قمیص لیں۔ امام علی علیہ السلام نے اس بات پر اصرار کیا کہ ان کا ملازم عمر میں ان سے کم تھا اور اچھے کپڑوں کا حقدار تھا اس لیے انہوں نے اس کے لیے اچھے کپڑے خریدے اور اپنے لیے سستے کپڑے لیے۔ اس طرح امام علی علیہ السلام نے ملازمین کے ساتھ سلوک کی اعلٰی اور بہترین مثال قائم کی۔ ذیل میں ہم اسلام میں تجارتی اخلاقیات کے اصولوں کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
طے شدہ تنخواہ
عام طور پر آجر اور اجیر کو مساوات اور انصاف کی بنیاد پر کسی معاہدے پر پہنچنا چاہیے۔ حضور نبی مہربان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کام کرنے والے ملازمین کو پہلے سے اجرت سے آگاہ فرما دیتے تھے۔ اس بات کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے سلیمان بن جعفر نے بتایا کہ ایک روز وہ امام رضاعلیہ السلام کے ہمراہ ان کے گھر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ امام رضا علیہ السلام کے ملازمین ان کا کام کر رہے تھے ۔ امام نے ان ملازمین میں ایک اجنبی شخص کو دیکھا اور دیگر ملازمین سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟ ملازمین نے جواب دیا یہ شخص ہمارے کام میں ہمارا ہاتھ بٹا رہا ہے اور آخر پر ہمیں اس کام کے عوض اس کو کچھ مزدوری عطا کر دیں گے۔ امام نے پوچھا کیا تم نے اس سے اجرت کے متعلق پوچھا اور اس پر یہ شخص متفق ہوا جس پر ملازمین کا جواب نفی میں تھا۔ تب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جان لو کہ اگر تم کسی بھی معاہدے سے قبل کسی شخص کو اس کی مزدوری کے عوض تین گنا زیادہ بھی ادا کرو گے تب تھی وہ یہ سوچے گا کہ تم نے اس کو کم اجرت ادا کی ہے۔ لیکن اگر تم نے کام سے پہلے اجرت طے کر لی تھی تو وہ اس اجرت کی ادائیگی پر تمہارا شکر گزار ہوگا اور اگر تم اس اجرت سے تھوڑا زیادہ ادا کردو تو اس فیاضی پر ہمیشہ تمہارا شکر گزار رہے گا۔
وقت پر اجرت کی ادائیگی
اسلام مزدور کو اس کی اجرت کی بروقت ادائیگی پر زور دیتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ” مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک ناقابل معافی گناہ اپنے ملازمین کو اس کی اجرت ادا نہ کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ” ایسا شخص جو کسی ملازم کی اجرت میں ڈنڈی مارے ، اللہ اس کی عبادات کو ضائع کر دیتا ہے اور وہ شخص کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکتا اور جنت کی خوشبو وہ ہے جس کو پانچ سو سال کے فاصلے سے سونگھا جا سکتا ہے۔
کام میں دیانت داری اور سچائی
ایک مسلمان کو اپنے کام میں دیانت دار ہونا چاہیے اور اپنے ملازمین کو ان کے کام کا کریڈٹ دینا چاہیے۔ محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ ایک امام علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ ایک ایسا شخص جو کسی کام کے کرنے کو قبول کر لیتا ہے اور اس کام کے آغاز سے قبل وہ یہ کام کسی اور کو دے دیتا ہے اور اس سے منافع حاصل کرتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے، اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا ” نہیں اس کی اجازت نہیں ہے جب تک وہ اس پر خود کچھ کام نہ کر لے۔اسی طرح ایک مسلمان کو اپنے معاملات میں راست باز ہونا چاہیے۔ اگر وہ کوئی مال فروخت کر رہا ہے تو اس کو ملاوٹ سے پاک ہونا چاہیے اور خریدنے والے کو اس کے نقائص کے بارے میں مکمل طو ر پر بتایا جائے۔
تحریری معاہدوں کی اہمیت
ہم میں سے اکثر لوگ معاشتری طور پر زبانی کلامی معاہدے کرتے ہیں اور خاص طور پر جب اپنے دوست یا عزیزو اقربا اس میں شامل ہوں تاہم اسلام نے اس حوالے سے تحریری معاہدوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے حتی کہ جب آپ اپنے کسی قریبی شخص چاہے بھائی کے ساتھ ہی تجارت کر رہے ہوں۔ تمام معاہدے چاہے یو وہ زبانی کلامی ہوں یا تحریری بہت واضح اور شفاف ہونے چاہیں۔ معاہدے قانونی اور منصفانہ ہونے چاہئیں۔ ملازمین کو اپنے ذمہ داریوں کا بخوبی علم ہونا چاہیے اور معاہدوں میں چھٹیوں، معاوضے اور دیگر شرائط کا واضح طور پر ذکر ہونا چاہیے۔
تجارتی پارٹنر کے حقوق
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کے پارٹنر کا یہ حق ہے کہ
اس کی غیر موجودگی میں اس کا بوجھ بٹائیں
جب وہ موجود ہو تو اس کے ساتھ مل کر برابری کا کام کریں
اس کی مرضی کے بغیر کسی چیز کا فیصلہ نہ کریں
اس کے ساتھ بات چیت کیے بغیر اپنے خیالات اس پر نہ ٹھونسیں