پاکستان کے جوہری پروگرام میں کلیدی کردار کے حامل سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر فیصل مسجد کے احاطے میں لایا گیا جہاں ان کی نمازِ جنازہ ادا کیے جانے کے بعد انھیں ایچ ایٹ کے قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 26 اگست 2021 کو کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے جس کے بعد حالت اچانک بگڑ گئی تھی اور انھیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا تاہم کچھ روز بعد ان کی طبیعت سنبھلنے لگی تھی اور انھیں واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ 11 ستمبر کو میڈیا کو جاری کردہ ویڈیو میں انھوں نے بتایا تھا کہ وہ صحت یاب ہو چکے ہیں تاہم انھیں آج صبح کو دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔ انھیں 2004 میں جوہری ٹیکنالوجی کی مبینہ منتقلی کے بارے میں ‘اعترافِ جرم’ کے بعد نظربند کیا گیا تھا اور وہ پانچ برس نظربند رہے تھے۔
تاہم 2009 میں عدالتی حکم پر نظربندی کے ’خاتمے‘ کے بعد بھی وہ عوامی تقریبات میں دکھائی نہیں دیتے تھے۔اگرچہ یہ نظر بندی 2009 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ’ختم‘ ہوئی لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر اپنی مرضی سے لوگوں سے ملنے اور ایک آزاد زندگی گزارنے جیسے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے مرتے دم تک عدالتوں سے ریلیف کے منتظر ہی رہے۔ اس غیراعلانیہ نظربندی کے خلاف ڈاکٹر خان نے مختلف اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں۔ آخری درخواست پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں دو سال قبل یعنی سنہ 2019 میں دائر کی گئی تھی جس پر نہ تو کوئی فیصلہ ہوا اور نہ ہی ان کے وکلا کو سکیورٹی کے نام پر ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ درخواست گزار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا شیخ احسن الدین اور توفیق آصف کے مطابق جب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے اس وقت سے اب تک اس کی صرف پانچ سماعتیں ہوئی ہیں جبکہ پہلی سماعت درخواست دائر کرنے کے نو ماہ بعد ہوئی تھی۔ ایک سماعت کے دوران تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سپریم کورٹ لایا گیا لیکن متعلقہ حکام نے انھیں کمرہ عدالت میں لے کر جانے کے بجائے اُنھیں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں بٹھا دیا گیا اور پھر وہیں سے ہی اُنھیں ان کے گھر منتقل کر دیا گیا۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اس درخواست کی سماعت کی تھی اور درخواست گزار کے وکلا نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کے مؤکل کو اگر کمرہ عدالت میں نہیں بلایا جاسکتا تو بینچ کے سربراہ انھیں اپنے چیمبر میں ہی سن لیں، تاہم عدالت نے ان کی استدعا پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکلا نے اپنے مؤکل کے گھر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا کہ جس جگہ ان کے مؤکل کو سکیورٹی کے نام پر قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اس علاقے سے بہت کم لوگوں کو گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی وہاں سے دو بار گزر جائے تو وہاں پر موجود سکیورٹی کے اہلکار اسے پکڑ لیتے ہیں اور اس سے تفتیش شروع کر دیتے ہیں کہ وہ کس مقصد کے لیے ادھر آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کی عمر 85 سال سےزیادہ ہے اور اس عمر میں انھیں اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے کی ضرورت ہے لیکن انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے قریبی فیملی ممبر نے بتایا کہ ان سے ملاقات کرنا بہت مشکل کام تھا۔ ’ہم ان کے براہ راست خاندان کا حصہ ہیں۔ مگر ان سے ملاقات اجازت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ ہم پہلے ان سے رابطہ قائم کرتے، پھر وہ سکیورٹی کو ہمارے بارے میں بتاتے، ملاقات کا مقصد بتایا جاتا اور پھر ان سے ملنے کی اجازت ملتی۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’وہ زندگی سے بھرپور انسان تھے۔ مگر ان کے شکوے تو میڈیا پر بھی نظر آئے۔ یہ قید تنہائی تھی۔ وہ رشتہ داروں سے ملنا چاہتے تھے، وہ فیملی مین تھے۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ دبے الفاظ میں شکایت کرتے تھے مگر اب یہی ان کی زندگی کا حصہ تھا۔ آج ایک باب ختم ہوا ہے۔‘
ڈاکٹر خان کو پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا تھا۔ تاہم جنرل مشرف کے دور میں ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سرکاری ٹی وی پر دیگر ممالک کو جوہری راز کی فروخت کے الزامات تسلیم کیے تھے جس کے بعد سنہ 2004 میں انھیں معافی دینے کے بعد ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اپنی خود نوشت ”سچ تو ہے“ میں لکھتے ہیں کہ پرویز مشرف نے مجھے اور ایس ایم ظفر کو بلایا اور کہا کہ ہم اے کیو خان کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ قوم سے معافی مانگیں۔ بعد ازاں مجھ سے کہا گیا کہ میں ڈاکٹر قدیر خان سے میں اکیلا ہی ملوں، ڈاکٹر اے کیو خان سے ملا تو انہوں نے کہا کہ مجھ پر جوہری مواد کی چوری کرنے کا الزام جھوٹا ہے، میں نے کوئی چیز نہیں بیچی اور نہ ہی میں نے کوئی رقم لی ہے۔ڈاکٹر اے کیو خان مجھے گھر کے اندرونی حصے میں لے گئے اور فرنیچر دکھایا کہ میری اہلیہ کے جہیز کا ہے، مجھ میں تو فرنیچر خریدنے کی استطاعت بھی نہیں۔ تاہم ڈاکٹر اے کیو خان نے معافی مانگ کر سارا الزام اپنے سر لے لیا یہ بہت بڑی قربانی تھی اور اس ایثار و قربانی سے پوری قوم کے دل میں ان کی عزت بہت بڑھ گئی تھی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان مشکل حالات سے لڑتے لڑتے آخر کار داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، نظر بندی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی ان کی متواتر درخواستیں اب بند ہو جائیں گی، ان کی یہ خواہش بھی کہ ملک کے اعلی ’عہدیداروں میں سے کوئی ان کی مزاج پرسی کر لے اب اختتام کو پہنچی، البتہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پیروکار وزیراعلی‘ سندھ کا بھیجا گیا پھولوں کا گلدستہ اور ان کی صحتیابی کے لیے لکھا گیا رقعہ ان کے لیے تقویت کا باعث ضرور بنا، ملک کے وزیراعظم سے لے کر وزرائے اعلی ’تک نے خود کو تدفین کی رسومات سے دور رکھا، صرف وزیر اعلی‘ سندھ تھے جنہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تدفین میں شرکت کی۔