ہم سب کے پاس ایک چیز ہے جسے ہم ذہنی صحت کہتے ہیں اور جو روزانہ کی بنیادوں پر ردوبدل کا شکار رہتی ہے۔ذہنی صحت صرف ان لوگوں تک محدود نہیں جن میں اس کی تشخیصی علامات موجود ہوں بلکہ یہ کسی بھی وقت کسی بھی شخص میں ظاہر ہو سکتی ہیں۔ کسی بھی موقع پر یا کسی بھی دن ہم خوشی، اداسی،اضطراب، غصے یا اس طرح کی کیفیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ تمام جذبات و احساسات ہماری ذہنی صحت کو بیان کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے اعضا ہماری جسمانی صحت کا مظہر ہوتے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم اپنی ذہنی صحت پر توجہ دیں اور اس کو بہترین حالت میں رکھیں کیونکہ ایسا نہ کرنے سے آپ مستقلا ذہنی امراض کا شکار بم سکتے ہیں اور اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔
ہم خوراک اور ورزش کے ذریعے اپنے جسمانی صحت کے مسائل کو حل کرتے ہیں اسی طرح دماغی صحت کے لیے بھی بہت ساری چیزیں ہیں جن کا کرنا ضروری ہے تاکہ انسان ذہنی طور پر مکمل تندرست رہے۔ذیل میں اس ضمن میں چند اقدامات بتائے گئے ہیں۔
1۔ ذپنی صحت کی موجودگی کو بہتر طور پر سمجھنا
کسی بھی مسئلے کا حل کا پہلا قدم اس کو قبول کرنا ہے۔ذہنی صحت کوئی الگ چیز نہیں ہے ۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ذہنی صحت وجود رکھتی ہے اور یہ ہر شخص کا مسئلہ ہے۔ اس لیے اس کے اہتمام کے لیے ہمیں اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہماری ذہنی صحت کا معیار ہمارے ایمان کی مضبوطی کا عکس نہیں ہے اور اس طرح کے خیالات مسلمان معاشروں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کے خیالات لوگوں کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے خاندان یہ طے کر لیتے ہیں کہ وہ اچھے مسلمان نہیں اور اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
زندگی ایک امتحان ہے۔اور یہ زندگی کی ایک موروثی فطرت ہے جس کا مطلب ہے کہ زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر اس کی ذہنی صحت متاثر ہوگی۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا کہ” اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ (2:155)
اس آیت سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالی امتحان کے طور پر ہم سے ہمارا مال اسباب اور پیاروں میں سے آزمائیں گے۔ اس طرح کے واقعات بلاشبہ ہماری ذہنی صحت پر اثر انداز ہوں گے۔ اللہ پاک کی ذات ہمیں بغیر حل دیے امتحان میں ڈالتی ہے تاہم اس کے لیے بہت سارے ایسے طریقے موجود پیں جن کے ذریعے ہم اپنی اور اپنے پیاروں کی اس مشکل وقت میں مدد کر سکتے ہیں۔
2۔ کسی ماہر سے مدد طلب کرنا
اس موقع پر میں ایک لمحہ رک کر مندرجہ بالا آیت کے آخری حصے کو واضح کرنا چاہتا ہوں یعنی” صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔” صبر کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم آرام سے بیٹھ جائیں اور خاموشی سے تکلیف کو برداشت کریں۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ صبر کو ہاتھ پاوں ہلائے بغیر سکون سے بیٹھے جانے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جو کہ بالکل ہی غلط ہے۔ صبر کا مطلب ہے کہ مایوس نہ ہونا اور اللہ سے امید کو ترک نہ کرنا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر ہمارے چھت میں سوراخ ہو تو کیا ہم اس کو درست کرنے کے لیے کچھ نہیں کریں گے؟ بلکہ پریشان ہونے کی بجائے ہم پلمبر کو فون کریں گے اور اس دوران عارضی طور پر چیزوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کریں گے۔ بالکل یہی مثال یہاں پر صادر آتی ہے۔
اگر ہماری ذہنی صحت درست نہیں ہو گی اور ہم خود سے اسے درست کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو ایسے وقت میں بہتر یہی ہے کہ ہم کسی ماہر کے پاس جائیں جو تھیراپی اور ادویات سے ہمارا علاج کرے۔اپنے میدان کے کسی ماہر سے رپنمائی کی ہدایت حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی فرمائی۔ کسی صحابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے پوچھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسے شخص کے پاس جاو جو اس کو بہتر جانتا ہو اور اس کی ہدایت کی پیروی کرو۔ اللہ کی عطا کردہ عقل ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اس حوالے سے کسی ماہر کی مدد لینا بالکل دانشمندانہ ہے۔
3۔ اللہ کو یاد کریں
کسی ماہر کی مدد کے ساتھ ساتھ ہمیں اللہ کی یاد کو بھی زندگی کا ضروری ترین حصہ بنانا چاہیے۔ قرآن کریم اللہ کو یاد نہ کرنے کے واضح نتائج سے ان الفاظ میں خبردار کرتا ہے۔ ” اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے” (20:124)
اگرچہ یہ آیت ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو کھلم کھلا اللہ اور اس کی کتاب کا انکار کرتے ہیں تاہم یہ ایک روحانی حقیقت بھی رکھتی ہے ۔ ہماری موروثیت میں اللہ پر ایمان اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا شامل ہے۔ جب اللہ کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہماری داخلی روحانیت متاثر ہوتی ہے جو بے چینی اور اضطراب کا سبب بنتی ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کون سی چیزیں اور اعمال ہمیں اللہ سے جوڑنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ ان میں قرآن کریم کی بلا ناغہ تلاوت اور اس کے پیغام کو سمجھنا اہم ترین ہے۔
4۔ ورزش
ورزش ڈوپامین کے اخراج کا سبب بنتی ہے، ڈوپامین ایک ایسا کیمیائی مادہ ہے جو انسان کے مزاج کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ صحت کے ایک سائیکالوجسٹ پی ایچ ڈی ڈاکٹر کیلے میک گونیل کا کہنا ہے کہ جب آپ ورزش کرتے ہیں تو آپ دماغ کے مرکز کو ہلکے جھٹکے دیتے ہو جسکے جواب میں دماغی نظام آپ کو خوشی، تحریک اور امید کی سوچیں فراہم کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ورزش کی مسلسل عادت دماغ کے ریوارڈ سسٹم کو بہتر بناتا ہے جس کے جواب میں ڈوپامین کی مقدار کا اخراج بڑھ جاتا ہے اور انسان تناؤ اور اضطراب سے چھٹکارا پالیتا ہے۔
5۔ اچھی صحبت اختیار کرنا
جامع ترمذی میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ ” کوئی بھی شخص اسی مذہب پر ہوتا ہے جس پر اس کے ساتھی ہوتے ہیں اس لیے دوستوں کے انتخاب میں احتیاط برتو” ۔ مذہب پر ہونے کا مطلب ہے جس طرح کا طرز زندگی ان کا ہوگا ویسے ہی اس فرد کا ہوگا۔ اچھی فطرت رکھنے والے افراد اور اسلامی ماحول میں اٹھنے بیٹھے سے انسانی کی ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے دوستوں کا انتخاب بہت احتیاط سے کرو۔ پس اس لیے دوست خدا خوفی رکھنے والے، عقلمند اور حساس ہونے چاہیں۔
6۔ اپنی طاقت کو پہچانیں
اللہ تعٰالی کے علاوہ ہمیں خود سے بہتر کوئی بھی ںہیں جانتا۔ اس لیے ایسی چیزوں کے بارے میں آگاہ رہیں جو آپ کی ذہنی صحت کو قابو میں رکھے۔ ان چیزوں میں نیند کی کمی، مسلسل کام اور آرام کے لیے مناسب وقت کا نہ ہونا، اپنے لیے وقت نہ نکالنا، اپنی طاقت اور کمزوریوں کو نہ سمجھ سکنا وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کے ہماری ذہنی صحت پر بہت برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔