بیجنگ اور ئی دہلی کے مابین بارڈر تنازعات کو حل کرنے کے لیے بات چیت کے گزشتہ دور کی ناکامی کے بعد سے تعلقات ایک مرتبہ پھر انتہائی کشیدہ ہیں۔ 17 ماہ سے جاری یہ سرحدی تنازع خطے کے لیے کوئی نیگ شگون نہیں ہے۔ حالیہ چند ماہ میں دونوں پڑوسیوں کے مابین اختلافات اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ان کو پاٹنا دونوں مخالفین کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اتوار کے روز کمانڈر لیول بات چیت کے 13 ویں راؤنڈ میں دونوں ممالک دستبرداری کے کسی بھی فارمولے پر متفق نہیں ہوسکے ۔چین نے اس کی وجہ انڈیا کے ’نامناسب اور غیر حقیقی مطالبات‘ کو قرار دیا جبکہ انڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے ’تعمیری مشوروں سے اتفاق نہیں کیا‘ اور یہ کہ اس نے ’کوئی ایسی متبادل تجویز بھی پیش نہیں کی.
اپریل 2020 سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب بھارت نے چین پر الزام عائد کیا کہ چین ان علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے جن پر بھارت اپنا دعوی کرتا ہے۔ یہ درحقیقت لداخ میں دونوں ممالک کے مابین نشاندہی کے بغیر والے پانچ علاقے تھے۔ اسی سال جون کے مہینے میں صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب دونوں جانب سے وادی گلوان میں جنگ شروع ہوگئی اور جھڑپوں میں 20 بھارتی فوجی اور 4 چینی فوج جاں بحق ہوگئے۔ اس جنگ کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے اور دونوں ممالک کے مابین 1962 کی جنگ کی یاد پھر تازہ ہوگئی جس کے بعد دونوں فریقین کے درمیان 1978 تک سفارتی تعلقات منقطع رہے۔ ایک دہائی کے بعد اس وقت راجیو گاندھی کی گانگریسی حکومت نے چین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششٰن شروع کر دیں جس سے دونوں کے مابین تعلقات بحال ہوگئے۔
وادی گلوان میں جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تقریبا امن ہوگیا تھا ماسوائے چند چھوٹی موٹی جھڑپوں کے۔ جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے چین کی بہت ساری ایپلی کیشنز پر پابندی کے علاوہ چینی تجارتی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنا تھا۔ دونوں جانب سے غصے کے اظہار کے بعد تعلقات میں کافی حد تک بہتری آئی اور دونوں فریقین وادی گلوان، جھیل بینگ گانگ اور گوگرا پوائنٹ سے پیچھے ہٹنے پر تیار ہوگئے۔ توقع تھی کہ حالیہ بات چیت کے مثبت نتائج نکلیں گے لیکن تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہوگئے ہیں۔
دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس سرحد پر تعطل شروع ہونے کے بعد سے چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں ایسے بڑے ڈھانچے تیار کر لیے اور تیار کر رہا ہے، جہاں سرد ترین موسم میں بھی فوج کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوکہ بعض مقامات سے چینی افواج پیچھے ہٹ گئی ہیں لیکن اہم ٹھکانوں پر وہ اب بھی موجود ہیں۔اس نئے انفرا اسٹرکچر میں ہیلی پیڈ، نئے بیرک، زمین سے فضا میں میزائل داغنے والے مقامات، ریڈار کی تنصیب کے ساتھ ساتھ چین نے نئے پل اور سڑکیں بھی تعمیر کر لی ہیں۔ چینی فوج پینگونگ سو جھیل اور بعض دوسرے مقامات سے پیچھے ہٹ گئی ہے لیکن عسکری اہمیت کے حامل ڈپیسانگ پلین، ڈیمچوک، ہاٹ سپرنگ اور کئی دیگر علاقوں میں وہ اب بھی پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ موجود ہے۔
خطی طاقتوں کا توازن
بھارت ذرائع کے مطابق چند دنوں قبل ہی چینی فوج نے اتراکھنڈ کے بارہ ہوٹی اور اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں دراندازی کی تھی۔ چین کے تقریباً 100 فوجی اتراکھنڈ میں بھارتی علاقے میں داخل ہو گئے تھے۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم نروانے نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ چین نے سرحد پر یہ صورتحال کیوں پیدا کی،”لیکن جو کچھ ہوا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اس سے انہیں کچھ حاصل ہو سکا ہے کیونکہ بھارتی مسلح افواج نے ان کو تیزی سے جواب دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیچھے خطے میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں خاس طور پر امریکہ کے افغانستان سے انخلا نے بیجنگ اور نئی دہلی کے مابین کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار پر قبضے نے خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے یعنی اس خطی تبدیلی کا نقصان بھارت کو ہوا ہے جبکہ پاکستان کو اس کا فائدہ ہوا ہے جبکہ چین نے بھی اس موقع سے بہت حد تک فائدہ اٹھایا ہے۔
اگر اتوار کو ناکام ہونے والے مذاکرات کو چین اور بھارت کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ دونوں مالک بین الاقوامی طاقت کی سیاست کی وجہ سے دور دور ہیں کیونکہ بھارت اس وقت تزویراتی طور پر امریکہ کے بہت قریب ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت بیجنگ کے خلاف برسرپیکار رہے۔ کواڈ گروپ جو کہ امریکہ، جاپان ، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل ہے ، چین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیوں کہ چین کواڈ کو ایشیا پیسفک میں اپنے لیے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد اوکس معاہدہ جس میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں چین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ چونکہ چین امریکہ کے خلاف کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے مگر اس نے جاپان کو خوفزدہ کرنے کے لیے پسیفک میں جاپان کے کچھ جزائر پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ آسٹریلیا کے ساتھ تجارت کو معطل کر دیا ہے اور بھارت کے ساتھ بارڈر تنازعے کا آغاز کر دیا ہے۔ بھارت اور چین کے بارڈر گزشتہ سات دہائیوں سے بلا نشاندہی موجود ہے اور اس کے لیے کوئی بین الاقوامی حدود بندی نہیں کی گئی۔ برطانیہ کی طرف سے کی گئی حد بندی کو چین نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔
سیاسی حریف اور تجارتی حلیف
دونوں ممالک کے درمیان سرحد کے حوالے سے کسی بھی معاہدے کا امکان اس لیے بھی مخدوش ہے کہ بین الاقوامی طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کی مخالف ترجیحات رکھتے ہیں۔ چونکہ بھارت نےامریکہ کو بطور حلیف چنا ہے وہیں چین نے بھارت کے حریف ملک پاکستان کا انتخاب کیا ہے۔ اس اتوار کو ہونے والی بات چیت کے دوران دونوں جانب سے عدم اعتماد کی فضا واضح تھی کیونکہ کوئی بھی فریق اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے پہ تیار نہیں تھا۔ بھارت کے وزیر دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ انہیں ’مثبت تجاویز‘ پیش کی گئی لیکن انہوں نے ’آمادگی کا اظہار‘ نہیں کیا اور ان کی طرف سے کوئی ’تجاویز بھی پیش‘ نہیں کی گئیں۔ جبکہ چین کی فوج کے ترجمان کے مطابق ’بھارتی حکام کے مطالبات غیر حقیقی اور منطق کے منافی ہیں جس کے باعث مذاکرات میں مشکلات پیدا ہوئیں۔
یہ بات افسوسناک ہے کہ دونوں ممالک کے مابین سیاسی طور پر تناؤ کے باوجود دونوں کے درمیان تجارت کا حجم 7۔62 فیصد ہے جو کہ مزید بڑھ رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق 2021 کے پہلے نصف حصے میں چین کے ساتھ کسی بھی ملک کی تجارت کا بلند ترین حجم بھارت اور چین کے مابین ہی تھا۔ گذشتہ سال انڈیا نے چین سے 58.7 ارب ڈالر مالیت کا سامان درآمد کیا جو امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے درآمد کیے گئے سامان سے زیادہ تھا جبکہ انڈیا نے چین کو 19 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا۔ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت گذشتہ سال 77.77 ارب ڈالر تھی جو وزارت تجارت کے عارضی اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال سے کچھ کم تھی۔ اس سے پچھلے سال دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 85.5 ارب ڈالر تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں مگر اس کشیدگی میں تجارت روشنی کی کرن ہے جو ان کے اپنے مسائل حل کرنےپر مجبور کر دے گی۔