ایسے وقت میں جب افغانستان افراتفری کا شکار ہے اور نیٹو کے اتحاد امریکہ کی سربراہی میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور یہ سب ایک سخت ڈیڈ لائن میں ہونا طے پایا ہے وہیں پر امریکہ اور اس کے یورپین یونین کے حلیفوں میں بعض تنازعات نے جنم لیا ہے۔ یورپین یونین کے بین الاقوامی تعلقات اور سیکورٹی کے نمائندہ جوزف بیرل نے افغانستان میں امریکی فوج پر الزام لگایا ہے کہ جان بوجھ پر یورپین یونین کے انخلا میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے جب کہ امریکی فوج کابل ائیرپورٹ پر سیکورٹی کی ذمہ دار تھی اور وہ اس انخلا میں ان کی بھرپور مدد کر سکتی تھی۔ دوسری جانب چین اور روس افغانستان کے حوالے سے اپنی دلچسپی کو اظہار محتاظ انداز میں کررہے ہیں۔ اور یہ روس کے لیے خاص طور پر درست ہے کیونکہ طالبان اور طالبان مخالف احمد مسعود کے جنگجوؤں کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کے بعد ماسکو اس کھیل میں ایک اہم کھلاڑی بن گیا ہے مگر پھر بھی روس بہت محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔
ان بڑی طاقتوں کے مقابلے میں سعودی عرب جو کہ مشرق وسطی کی ایک خطی طاقت ہے افغانستان کے معاملے پر مکمل طور پر خاموش دکھائی دیتی ہے۔ اب تک سعودی عرب نے صرف ایک سفارتی بیان ہی جاری کیا ہے جس میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ طالبان افغانستان کی سیکورٹی، استحکام اور خوشحالی کو برقرار رکھ سکیں گے۔ افغانستان میں سعودی عرب کے کردار کو دیکھا جائے تو یہ خاموشی معنی خیز ہے۔ چونکہ طالبان بنیادی طور پر سویت مخالف سنی جہادی تھے اور ان پر وہابی ازم کا گہرا اثر تھا اسی وجہ اسے انکا جھکاو قدرتی طور پر ریاض کی جانب تھا۔ اس دوران طالبان نے پہلی مرتبہ افغانستان پر قبضہ کر لیا اور سعودی عرب ان چند ممالک میں شامل ہو گیا جنہوں نے طالبان حکومت کو جائز قرار دے کر اسے تسلیم کر لیا۔ اگرچہ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے حملوں کی وجہ سے طالبان جلد ہی اقتدار سےمحروم ہوگئے اور امریکی دباو پر سعودی عرب کو طالبان کی حمایت ترک کرنا پڑی مگر خفیہ طور پر سعودی عرب نے طالبان اور القاعدہ کی مالی امداد جاری رکھی۔
تاہم 2010 کے بعد شام کی خانہ جنگی اور دولت اسلامیہ کے ابھرنے کے ساتھ ریاض نے افغانستان میں اپنے شراکت داروں کی فنڈنگ میں کمی کر دی کیونکہ ان کی فنڈنگ کا رخ کسی اور طرف ہو گیا تھا۔ جون 2017 میں جب محمد بن سلمان سعودی عرب کا ولی عہد مقرر ہوا اور طاقت حاصل کی، سعودی عرب کی مجموعی خارجہ پالیسی بڑی تبدیلیوں کا شکار ہونا شروع ہوگئی ۔ اس نے مذہبی نظریات کو کی پالیسی کو دنیا میں منتقل کرنے کی بجائے مذہبی سفارتی کاری کا رخ کیا جس کا محور بڑی معیشتوں کے ساتھ معاشی، تجارتی اور صنعتی تعاون تھا۔ اس اپروچ کے تحت سعودی عرب کی افغان پالیسی بھی یقینی طور پر بڑی تبدیلیوں سے گزرے گی۔ سعودی ولی عہد کی جانب سے نئی اصلاحات کے آغاز کے بعد سعودی عرب نے طالبان کے لیے اپنی معاشی امداد میں بڑی حد تک کمی کر دی ہے ۔ اس کے علاوہ ریاض نے طالبان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ مسلح حملوں میں کمی لائیں اور پر امن طریقے سے ملک کی تعمیروترقی پر توجہ دیں۔
سعودی عرب کی جانب سے ریاض کے مؤقف میں تبدیلی کا مطلب ہے کہ طالبان کی بین الاقوامی سطح پر آواز کمزور ہوئی ہے ۔ حالیہ برسوں میں طالبان نے افغان امن بات چیت کے دوران سعودی عرب سے خود کو دور رکھا۔ اگست 19 کو طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے بعد ، طالبان کے ایک سینیر رہنما نے واضح طور پر بیان دیا کہ طالبان وہابی ازم کو قبول نہیں کرتے اور افغانستان میں وہابی ازم کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگرچہ اس بیان کا مطلب ہے کہ القاعدہ کے مذہبی دعووں کی طالبان اب مزید حمایت نہیں کریں گے بلکہ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ طالبان اب ریاض سے اپنے تعلقات ختم کرنے کے پوائنٹ تک پہنچ گئے ہیں۔ ان حالات میں ، محمد بن سلمان کے زیر اثر سعودی حکام دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے۔