افغانستان کے شہر قندھار کی ایک امام بارگاہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران بم دھماکے کے نتیجے میں 41 افراد شہید اور 70 سے زائد زخمی ہوگئے۔ خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان عہدیداروں نے بتایا کہ شمالی افغانستان کے شہر قندھار میں نماز جمعہ کے دوران خود کش حملہ کیا گیا۔ طالبان کے ایک مقامی عہدیدار نے کہا کہ ہمیں ابتدائی طور پر موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حملہ خود کش تھا، جس نے مسجد کے اندرخود کو اڑا دیا اور مزید تفتیش کی جارہی ہے۔ شہر کے مرکزی میر وائس ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ ’میروائس ہسپتال میں 41 لاشیں اور 74 زخمیوں کو لایا گیا‘۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میںکہا کہ امارات اسلامی اس واقعے کی مذمت کرتی ہے اور اس کو بہت بڑا جرم تصور کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داروں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔
ابتدائی طور پر دھماکے کی نوعیت معلوم نہیں ہوسکی لیکن یہ شمالی شہر قندوز کی امام بارگاہ میں خودکش بم دھماکے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ہوا جس کی ذمہ داری ’داعش‘ نے قبول کی تھی۔ برطانوی ادارے ایکس ٹریس کا کہنا تھا کہ اگر داعش خراسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تو قندھار میں داعش کا یہ پہلا حملہ ہوگا اور افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد چوتھا بڑا واقعہ ہے۔ ایکس ٹریس کے محقق عبدالسعید کا کہنا تھا کہ حملہ طالبان کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں ان کا قبضہ ہے، اگر طالبان قندھار کو داعش سے محفوظ نہیں بناسکتے تو پھر پورےملک کو کیسے محفوظ بنائیں گے۔قبل ازیں گزشتہ جمعہ کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز کی ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 55 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔
قندھار میں ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی، تاہم دولتِ اسلامیہ خراسان ماضی قریب افغانستان کی شیعہ برادری پر ہونے والے بیشتر حملوں میں ملوث رہی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش درحقیقت شیعہ آبادی کو اس لیےنشانہ بنا رہی ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ افغانستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا ملے اور ایران کسی بھی طرح اس معاملے میں ملوث ہو اور طالبان سے شیعہ آبادی کے تحفظ کا مطالبہ کرے یا پھر جس طرح ماضی میں شمالی اتحاد کی سرپرستی کرتا رہا ہے بالکل اسی طرح افغانستان کی شیعہ آبادی کی سرپرستی کرے تاکہ ملک میں ایک تیسرے محاذ کو کھولا جا سکے۔ کیونکہ داعش کا بنیادی مقصد اس وقت طالبان حکومت کو کمزور کرنا ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ طالبان کے خلاف زیادہ سے زیادہ محاذ کھول دیے جائیں۔ تاہم داعش اس بات سے بے خبرہے کہ مسلسل شیعہ آبادی کو نشانہ بنانے سے ایران اور طالبان اس کے خلاف مشترکہ محاذ بھی کھول سکتے ہیں جو آنے والے وقتوں کے لیے اس کے بھیانک نتائج کا حامل ہوسکتاہے۔
داعش دنیا کو یہ بھی باور کرانا چاہتی ہے کہ طالبان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اس لیے ان کا حکومت میں رہنے کا کوئی جواز نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ طالبان حکومت کو اس قدر کمزور کردینا چاہتے ہیںن کہ وہ دیگر امور کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ اس وقت سب سے زیادہ خدشہ یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی داعش کے جنگجو اکٹھے ہو کر افغانستان میں پہچنا شروع ہوگئے ہیں اور لگ رہا ہے کہ اگلا اکھاڑہ افغانستان ہو گا جہاں گھمسان کا رن پڑے گا مگر اس جنگ میں شاید اقلیتیں ہیں سب سے زیادہ درندگی کا نشانہ بنیں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ طالبان عسکریت پسندی سے حکومت کی طرف آچکے ہیں۔ ان حالات میں ان کی بنیادی آزمائش یہ ہوگی کہ آیا وہ ان اقلیتوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں یا نہیں جنہیں ماضی میں ان کے جنگجوؤں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے جیسے کہ شیعہ ہزارہ برادری۔
ہزارہ برادری تشدد کی کئی مہمات کا شکار رہ چکی ہے اور افغانستان میں تاریخ میں ہمیشہ نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔ جب 1990 کی دہائی میں طالبان پہلی مرتبہ اقتدارمیں آئے انہوں نے ہزارہ برادری کا قتل عام کیا اور بعض صورتوں میں نسلی پشتونوں کے قتل عام پر جوابی کارروائی کی گئی۔ داعش نے ہزارہ برادری کو اس لیے ہدف بنایا ہے کیونکہ وہ شیعہ مسلمان ہیں۔ ان کے عبادت کے مقامات کو نشانہ بناتے ہوئے وحشیانہ حملوں میں سینکڑوں ہزارہ کو قتل کیا۔ جمعے کو قندور میں مسجد پر حملے کے نتیجے میں طالبان کو موقع مل گیا ہے کہ وہ ریاستی طاقت کی اپنی ساکھ کو مضبوط بنائیں۔مگر قندھار حملے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ طالبان اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
مستقبل میں افغانستان داعش اور طالبان کے مابین جنگ کا نیا میدان ہوگا۔ اب دیکھنا ہے کہ طالبان اس جنگ میں داعش کا خاتمہ کر کے اپنے اقتدار کو مستحکم کر سکتے ہیں اور دنیا کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس وقت طالبان کے لیے بہترین یہ ہوگا کہ وہ ایران کے ساتھ مل کر داعش کے خاتمے کی کوشش کرے کیونکہ داعش کے خلاف اگر بہترین اور قدرتی اتحاد ہوسکتا ہے تو وہ ایران اور طالبان کے مابین ہے۔ ایران کو بھی چاہیے کہ وہ طالبان پر شیعہ برادری کے تحفظ کا سخت مطالبہ کرے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے ظالمانہ اقدامات کو روکا جاسکے۔