بائیو ٹیک لیبارٹری ویلنیوا نے بتایا ہے کہ اس کی تجرباتی کووڈ 19 ویکسین کی افادیت اگر ایسٹرا زینیکا سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر ضرور ہے۔
کمپنی کی جانب سے تجرباتی ویکسین کی افادیت کا موازنہ ایسٹرا زینیکا ویکسین سے کیا گیا تھا اور دریافت کیا کہ ویلنیوا کی ویکسین کے مضر اثرات نمایاں حد تک کم ہیں۔
ویلنیوا ان چند دوا ساز کمپنیوں میں سے ایک ہیں جو اپنی ویکسینز کا موازنہ ابھی دنیا میں استعمال کی جانے والی ویکسن سے کررہی ہیں۔
فرانس کی اس کمپنی کو توقع ہے کہ اس کی تجرباتی ویکسین وبا کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہوسکے گی۔
اس ویکسین کی تیاری کے لیے روایتی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے اور ٹرائل ٹیم کی سربراہی کرنے والے ایڈم فن نے بتایا کہ ویکسین کی خوراکیں ان افراد کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں جن کی ابھی ویکسینیشن نہیں ہوئی، وہ افراد ہماری ترجیح ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وی ایل اے 2001 نامی ویکسین سے نمایاں حد تک ٹھوس مدافعتی ردعمل متحرک ہوتا ہے اور اینٹی باڈی ردعمل سے کووڈ 19 سے تحفظ کا عندیہ ملتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اینٹی باڈی ردعمل اگر ایسٹرا زینیکا سے زیادہ بہتر نہیں تو کم از کم اس کے برابر ضرور ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں ویکسینز بہت زیادہ مؤثر ہیں بالخصوص بیماری کی سنگین شدت سے بچانے کے لیے، ٹرائل میں شامل کوئی بھی رضاکار کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہوا۔
کمپنی کی جانب سے ویکسین کی آزمائش کورونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا سے بھی کی جارہی ہے۔
تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ 28 دن میں 2 خوراکوں میں استعمال کی جانے والی ویلنیوا ویکسین سے بہت کم مضر اثرات جیسے انجیکشن کے مقام پر تکلیف اور بخار سامنے آتے ہیں۔
اس ٹرائل میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 4012 بالغ افراد کو شامل کیا تھا اور یہ ان ایکٹیوڈ ویکسین ہے۔
کمپنی کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ٹرائل کا ڈیٹا نومبر میں برطانوی ریگولیٹر کے پاس جمع کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ 2021 کے آخر تک اس کی منظوری حاصل کی جاسکے۔
کمپنی کو توقع ہے کہ وہ مارچ 2022 تک یورپی یونین سے بھی ویکسین کے استعمال کی منظوری حاصل کرلے گی۔
کمپنی کی جانب سے ویکسین کے ٹرائل میں بڑی عمر کے بچوں اور بزرگ افراد کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔
کورونا کی اقسام ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس اینٹی باڈی ردعمل کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں، تحقیق
کورونا کی ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس اقسام کووڈ 19 سے بیمار ہونے والے اور ویکسینیشن کرانے والے افراد میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خلاف اوریجنل وائرس (وہ وائرس جو وبا کے ابتدائی مرحلے میں گردش کررہا تھا) کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت کرتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ زیادہ خطرناک اور بہت تیزی سے عالمی سطح پر پھیل گئیں۔
یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
جرمن پرائیمیٹ سینٹر کی اس تحقیق میں کورونا کی ان دونوں اقسام پر جانچ پڑتال کی گئی تھی جن میں سے ڈیلٹا پلس بنیادی طور پر ڈیلٹا کی ہی ایک ذیلی قسم ہے جس میں اضافی میوٹیشنز اسے زیادہ خطرناک بناتی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اقسام پھیپھڑوں کو اوریجنل وائرس کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز سے متاثر کرتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق ڈیلٹا قسم پھیپھڑوں کے خلیات میں تبدیلیاں لانے کے حوالے سے زیادہ بہتر کام کرتی ہے اور متاثرہ خلیات کو صحت مند خلیات میں بھی شامل کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ زیادہ افراد کو بیمار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
محققین نے بتایا کہ یہ قابل یقین ہے کہ اس طرح ڈیلٹا قسم زیادہ مؤثر انداز سے پھیلتی ہے اور زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جس سے بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے 4 مونوکلونل اینٹی باڈیز میں سے ایک bamlanivimab ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے خلاف مؤثر نہیں بلکہ وہ دیگر 2 اینٹی باڈیز کے خلاف بھی مزاحمت کرتی ہیں۔
اسی طرح فائزر/ بائیو این ٹیک اور ایسٹرا زینیکا ویکسینز کے استعمال سے بننے والی اینٹی باڈیز بھی اوریجنل وائرس کے مقابلے میں ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے خلاف زیادہ مؤثر نہیں ہوتیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ ویکسینیشن ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر بیماری کی سنگین شدت سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے مگر اینٹی باڈیز اکثر مکمل تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بیماری کی سنگین شدت کے خلاف ویکسینیشن کی افادیت کے پیش نظر ویکسینیشن کی شرح بڑھانے کا ہدف جاری رکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے پھیلنے سے طبی نظام پر بڑھنے والے بوجھ کی روک تھام ہوسکے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسینیشن سے دونوں اقسام کے خلاف کافی حد تک تحفظ ملتا ہے اور ڈیلٹا پلس ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک قسم نہیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سیل رپورٹس میں شائع ہوئے۔