خبریں ہیں کہ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے رابطے مکمل ہو گئے ہیں پارلیمنٹ کے باہر تحریک چلانے کیلئے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) جلد نئے لائحہ عمل کا اعلان کریگی جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کیلئے چار نکاتی ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے۔ اجلاس میں مہنگائی، انتخابی اصلاحات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر مشاورت اور ملک میں فی الفور شفاف الیکشن کرائے جانے کے مطالبہ کے علاوہ نومبر اور دسمبر کے شیڈول اور اسلام آباد کی طرف کاروان کی حکمت عملی اور کراچی میں ہونے والے اجلاس کی تجاویز پر غور کیا جائیگا۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں مہنگائی اور بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج کا اعلان کردیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے اسلام آباد کے آبپارہ چوک پر مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں پی پی کے عہدیداران اور کارکنان بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پی پی رہنما نیئر بخاری کا کہنا تھاکہ موجودہ نا اہل حکومت نے غریب عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے، آٹا، چینی، ادویات غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تحریک کو ملک کے کونے کونے میں پھیلائیں گے اور اِس حکومت کو گھر بھیج کر دم لیں گے۔
اپوزیشن کی جانب سے مہنگائی اور بیروز گاری کے خلاف پاکستان مسلم لیگ ن کا پہلا احتجاجی مظاہرہ راولپنڈی میں ہوا ۔ مظاہرہ کی قیادت پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب ، سابق ایم این اے حنیف عباسی ،سردار نسیم اور ملک ابرار کررہے تھے۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب جو ڈیڈ لاک حکومت اور فوج کے مابین پیدا ہوگیا تھا اس کے حوالے سے بھی تاحال چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ
عین ممکن ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے حوالے سے آپس میں کوئی اتفاق رائے پیدا کرلیا ہو اور اب محض اس سلسلہ میں اٹھنے والی گرد کے بیٹھنے کا انتظار کیا جارہا ہو تاکہ تقرری کا اعلان ہونے پر کسی نئی بحث کا آغاز نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے وزیر اعظم نے آرمی چیف کی تجویز مان لی ہو اور محض یہ دکھانے کے لئے کہ اصل اختیار وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہے اور جب تک وہ نہیں چاہیں گے، آئی ایس کا نیا سربراہ نہ تو چارج لے سکتا ہے اور نہ ہی پرانا سربراہ اپنے نئے عہدے پر روانہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح فوجی قیادت کو طاقت کے توازن کے بارے میں واضح پیغام دیا گیا ہو۔ تاہم یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ ان قیاس آرائیوں کے جلو میں سول ملٹری تعلقات کے بارے میں افواہوں کا ایک طوفان بھی اس وقت ملک کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ پاکستان میں سیاست اور سیاسی معاملات میں فوج کی دلچسپی کی تاریخ کی روشنی میں یہ سمجھنا دشوار نہیں ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم ہاؤس سے خواہ کوئی بھی اعلان سامنے آئے لیکن اس سے افواہوں کی شدت میں کمی واقع نہیں ہوگی۔
اس تصادم میں حکمران جماعت اور وزیر اعظم کی پوزیشن ایک تو سیاست میں فوج کی غیر معمولی( گو کہ غیر ضروری و غیر آئینی) قوت کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ملکی معیشت میں پائے جانے والی افراتفری، قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں تعطل بھی حکومت اور فوج میں دوری کا سبب بنا ہے۔ قیمتوں اور بیروزگاری کے بحران کے باعث حکومت دن بدن غیر مقبول ہو رہی ہے۔ گو کہ موجودہ نظام کو ہائیبرڈ نظام کی شہرت اسی وجہ سے ملی ہے کہ عمران خان کی سیاسی طاقت اور فوج کی تائد کو ملا کر ملک پر ایک ایسی حکومت یا نظام مسلط کیا گیاتھا جس میں سول و عسکری قیادت ہم پیالہ و ہم نوالہ تھی۔ تاہم فوج بطور ادارہ ایک غیر مقبول حکومت کی سرپرست کے طور پر شہرت سے پریشان تھی ۔ اختلاف کی موجودہ صورت حال نے اسے کسی حد تک خود کو ’غیر جانبدار یا لاتعلق‘ ثابت کرنے کا موقع دیاہے۔
یہی وجہ ہے کہ تقرری کا تنازعہ حل ہوجانے کے بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت کو پہلے جیسا اعتماد اور سیاسی بنیاد میسر نہیں ہوگی۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ سامنے آسکتا ہے کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا امکان کم ہوجائے اور واقعی ان ہی سیاسی پارٹیوں کو حکومت سازی کا موقع مل سکے جو عوام کی حمایت سے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک بری روایت بہر حال ملک میں جمہوری بالادستی کا ایک نیا رجحان سامنے لاسکے گی۔ اور اگر سیاست دانوں نے ہوشمندی سے کام لیا تو مستقبل میں حالات کو اس نہج پر استوار کیاجاسکے گا کہ سول معاملات میں عسکری قیادت کا کردار محدود ہوجائے اور پاکستان ایک نارمل جمہوری معاشرہ کے طور پر کام کرنے لگے۔
اپنے اقتدار کے خلاف دباؤ محسوس کرنے کی صورت میں وزیر اعظم ازخود مڈ ٹرم انتخابات کا اعلان بھی کرسکتے ہیں یا انہیں ایسا اعلان کرنے پر مجبور بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہونے والے انتخابات میں عمران خان شاید نہ تو اکثریت حاصل کرسکیں اور نہ ہی دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکیں۔ اس لئے ا ن کی خواہش و کوشش یہی ہوگی کہ کسی طرح پارلیمانی مدت پوری کی جائے اور باقی ماندہ وقت میں استحکام پیدا کرکے دوبارہ عوام کی حمایت حاصل کی جائے۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ اس وقت اپوزیشن کسی طور پر بھی اقتدار لینے کے موڈ میں نہیں ہے کیونکہ وہ عمران خان حکومت کی ناکامیوں کا ملبہ کسی طور بھی سر پر لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اس لیے اس وقت مڈ ٹرم انتخاب کا عمل ناممکن لگتا ہے تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ موجودہ معاشی اور ملکی حالات کے پیش نظر کچھ عرصہ کے لیے حکومت ٹیکنو کریٹس کے حوالے کر دی جائے تاہم دیکھنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پٹاری سے کیا نکلتا ہے۔