کووڈ ویکسینز ڈیلٹا سے بیمار افراد کا موت خطرہ کم کرنے کیلئے 90 فیصد تک مؤثر ہے۔
یہ بات اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ایڈنبرگ یونیورسٹی کی جانب سے جاری ڈیٹا کے لیے پورے اسکاٹ لینڈ میں کووڈ سرویلنس ٹول کو استعمال کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ڈیلٹا سے موت کا خطرہ کم کرنے کے لیے فائزر/ بائیو این ٹیک ویکسین 90 فیصد جبکہ ایسٹرا زینیکا ویکسین 91 فیصد تک مؤثر ہے۔
تحقیق کے لیے ان افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی مگر بعد ازاں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔
یہ پہلی تحقیق ہے جس میں ثابت ہوا ہے کہ پورے ملک میں ویکسینیشن کورونا کی قسم ڈیلٹا سے متاثر ہونے پر موت سے بچانے کے لیے کس حد تک مؤثر ہے۔
محققین نے ایسے مریضوں کو کووڈ کے نتیجے میں ہلاک قرار دیا جو مثبت پی سی آر ٹیسٹ کے بعد 28 دن کے اندر چل بسے یا موت کے سرٹیفکیٹ میں کووڈ کو وجہ قرار دیا گیا ہو۔
اس تحقیق میں یکم اپریل سے 27 ستمبر کے دوران اسکاٹ لینڈ کے 54 لاکھ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
اس عرصے میں ایک لاکھ 15 ہزار افراد میں کووڈ 19 کی تصدیق پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے ہوئی اور 201 مریض ہلاک ہوئے۔
ڈیٹا کے مطابق اس عرصے میں اسکاٹ لینڈ میں موڈرنا ویکسینیشن کرانے والے کوئی فرد کووڈ کے باعث ہلاک نہیں ہوا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے کووڈ سے موت کی روک تھام کے حوالے سے موڈرنا کی افادیت کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں۔
اب تک اسکاٹ لینڈ میں 87.1 فیصد بالغ افراد کی کووڈ ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے اور 50 سال سے زائد عمر کے تمام افراد کو تیسری خوراک فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جبکہ طبی عملے اور مختلف طبی مسائل کے شکار جوان افراد کو بھی بوسٹر ڈوز فراہم کیا جائے گا۔
محققین نے بتایا کہ دنیا کے متعدد مقامات میں ڈیلٹا قسم کو غلبہ حاصل ہوچکا ہے اور سابقہ اقسام کے مقابلے میں یہ قسم ہسپتال میں داخلے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، تو نتائج سے یہ یقین دہانی خوش آئند ہے کہ ویکسینیشن موت سے بچانے کے لیے کتنی مؤثر ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر آپ نے ابھی تک ویکسینز کا استعمال نہیں کیا تو ایسے کرلیں اور یہ مشورہ ہم اس کے واضح فوائد کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔
ایسٹرا زینیکا کوووڈ ویکسین بچوں کی خواہشمند خواتین کیلئے محفوظ قرار
ایسٹرا زینیکا کی کووڈ 19 ویکسین سے خواتین کے حمل یا بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
یہ بات ایسے خواتین کے ایک گروپ پر ہونے والی تحقیق میں سامنے آئی جو اس ٹرائل کے دوران حاملہ ہوئیں۔
طبی جریدے دی لانسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اسقاط حمل کی شرح ویکسینیشن کرانے والے اور پلیسبو استعمال کرنے والے گروپ میں لگ بھگ یکساں تھی جبکہ کسی مردہ بچے کی پیدائش یا پیدائش کے وقت بچے کا انتقال نہیں ہوا۔
اس تحقیق کے لیے برطانیہ، برازیل اور جنوبی افریقہ میں ہونے والے 4 ٹرائلز سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور ایسی خواتین کو شامل نہیں کیا گیا جو پہلے ہی حاملہ تھیں۔
93 رضاکار تحقیق کے دوران حاملہ ہوئیں جن میں سے 50 سے ویکسین جبکہ 43 نے پلیسبو کو استعمال کیا۔
نتائج سے ثابت ہوا کہ ویکسین سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
مجموعی طور پر 107 حاملہ خواتین کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں سے 15 نے تحقیق کے دوران بچوں کو جنم دیا، جن میں سے 10 ویکسین اور 5 پلیسبو گروپ کی تھیں۔
ویکسینیشن کرانے والی 3 خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش طے شدہ وقت سے کچھ پہلے یعنی 34 سے 37 ہفتوں کے دوران ہوئی۔
کورونا وائرس حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھاتا ہے مگر ویکسین کے اثرات کے حوالے سے کلینکل ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے اکثر خواتین ویکسینیشن کرانے سے ہچکچاتی ہیں۔
نیشنل ہیلتھ سروسز نے چند دن پہلے بتایا تھا کہ برطانیہ میں ویکسینیشن نہ کرانے والی لگ بھگ 20 فیصد حاملہ خواتین کووڈ 19 کے باعث بہت زیادہ بیمار ہوچکی ہیں۔
برطانیہ اور امریکا میں زیادہ تر حاملہ خواتین کو فائزر یا موڈرنا ویکسینز فراہم کی جارہی ہیں جس کی وجہ عالمی سطح پر اس گروپ میں ان کا زیادہ استعمال اور مضر اثرات مرتب نہ ہونا ہے۔
مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ گمراہ کن مواد کے پھیلاؤ کی وجہ سے ویکسینیشن کرانے کی شرح حاملہ خواتین میں کم ہے، اس ڈیٹا کے ساتھ ساتھ ایم آر این اے ویکسینز کے شائع شدہ ڈیٹا سے خواتین کو ایسے شواہد فراہم کیے جاسکیں گے جن کو دیکھتے ہوئے وہ ویکسینیشن کا فیصلہ کرسکیں گی۔
خیال رہے کہ حاملہ خواتین کو ویکسینز کے ٹرائل کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔
کووڈ 19 سے معمولی بیمار بچوں میں اینٹی باڈیز نہ بننے کا امکان
کورونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
اس تحقیق میں 57 بچوں اور 51 بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔
ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
محققین کی جانچ پڑتال سے صرف 37 فیصد بچوں میں بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈی کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح 76 فیصد رہی۔
محققین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد میں دیکھنے میں آیا۔
مردوخ چلڈرنز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں شامل تمام افراد 2020 میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔
محققین نے بتایا کہ اس وقت گردش کرنے والے کورونا کی قسم (ڈیلٹا) سے متاثر بچوں میں بھی ایسا ہورہا ہے، اس بارے میں ابھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح یہ سمجھنے کے لیے بھی تحقیقی کام کی ضرورت ہے کہ آخر بچوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اینٹی باڈی ردعمل بننے کا امکان کم کیوں ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب اینٹی باڈیز نہ بننے کی وجہ سے بچوں میں ری انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا نہیں، یہ بھی ابھی معلوم نہیں۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور medRxiv پر جاری کیے گئے۔