سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے توہین مذہب کے معاملات میں افراد کی بجائے ریاست کو فریق بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی یہ نشاندہی محض بلاسفیمی قوانین کے حوالے سے ہی سود مند نہیں ہونی چاہیے بلکہ متعدد دیگر جرائم کے بارے میں بھی افراد کی بجائے ریاستی اداروں کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ تاکہ مقدمہ درج کرنے اور اس کی پیروی کے سلسلہ میں ابہام دور ہو سکے۔
حال ہی میں سامنے آنے والے بعض ہائی پروفائل معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ کوئی جرم سرزد ہونے کے بعد ابتدائی تفتیشی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے یا کروانے پر تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ پولیس اور ریاست کے دیگر متعلقہ ادارے منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے دوران وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران عمران خان کے کنٹینر پر حملہ کے حوالے سے یہ صورت حال خاص طور سے نوٹ کی گئی تھی۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے باوجود عمران خان یہ شکایت کرتے رہے تھے کہ ان کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ درحقیقت اس واقعہ کی شکایت سپریم کورٹ کی طرف سے حکم جاری ہونے کے بعد ہی درج ہو سکی تھی۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت کا اعتراض ہے کہ ایف آئی آر ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہے۔ اسی طرح کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم بھی سپریم کورٹ نے دیا تھا۔ اور مرحوم صحافی کے اہل خاندان اس پر مطمئن نہیں ہیں کیوں کہ وہ بھی عمران خان کی طرح اس ایف آئی آر میں چند مخصوص لوگوں کا نام درج کروانا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ان دونوں معاملات کا نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کروانے کا اہتمام تو ضرور کیا لیکن عدالت عظمی کے فاضل جج حضرات یہ طے کرنے میں ناکام رہے کہ کیا کسی جرم یا غیر قانونی واقعہ پر شکایت درج کرنے یا کروانے کا کام واقعی عدلیہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا یہ کسی بھی علاقے کی پولیس کی فطری اور قانونی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ کسی جرم کی اطلاع ملتے ہی مقدمہ درج کرے اور مزید تفتیش کے دوران جوں جوں مزید معلومات سامنے آتی رہیں تو اس کا دائرہ وسیع یا محدود کیا جاتا رہے۔ کسی ایک واقعہ میں سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی درج ہونے کے حوالے سے دو قباحتیں بہر حال موجود رہیں گی:
1: ایسے ہائی پروفائل کیسز جو میڈیا کے ذریعے یا سیاسی نوعیت کے اعتبار سے توجہ حاصل کر لیں، ان پر تو سپریم کورٹ کے جج ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیتے ہیں اور انسپکٹر جنرل پولیس کو طلب کر کے اس کی تصدیق بھی مانگ لیتے ہیں۔ لیکن بائیس تئیس کروڑ آبادی کے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں ایسے جرائم سرزد ہوتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ پولیس مقدمہ درج کرنے اور اس میں مخصوص افراد کو نامزد کرنے یا نہ کرنے کے بہانے فریقین کو بلیک میل کرتی ہے یا ان سے بھاری رشوت وصول کی جاتی ہے۔ چند ایک خاص معاملات میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے کر سپریم کورٹ اس نا انصافی کی روک تھام کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
2:کسی ایک معاملہ میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے کر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فاضل جج حضرات درحقیقت پولیس کے دائرہ کار میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پولیس کے بدنام زمانہ کلچر کی وجہ سے چونکہ عام طور سے پولیس کے بارے میں کوئی عوامی ہمدردی نہیں پائی جاتی، اس لئے اس معاملہ کو بھی زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ کسی جرم سرزد ہونے کے بعد مقامی پولیس افسروں پر ہی یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور وہی اس کا استحقاق بھی رکھتے ہیں کہ کوئی غیر قانونی واقعہ سرزد ہونے کے بعد صورت حال کا جائزہ لیں اور اپنی بہترین صوابدید کے مطابق بنیادی شکایت یا ایف آئی آر درج کریں۔ بعد میں ٹرائل کورٹ کسی بھی مقدمہ کی سماعت کے دوران اگر پولیس کی طرف سے کسی کوتاہی یا زیادتی کو نوٹ کرتی ہے تو ایف آئی آر میں مناسب ترمیم کا حکم دے سکتی ہے۔ لیکن ایف آئی آر درج کروانے کے معاملات میں بھی اگر سپریم کورٹ متحرک ہونے لگے گی تو پولیس کی خود مختاری اور غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کے اصول کی کیسے حفاظت کی جا سکے گی؟
سپریم کورٹ کو کسی مقدمہ میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے کی بجائے یہ غور کرنے کی ضرورت تھی کہ ایسی شکایت درج کروانے کے معاملہ میں تنازعہ کیوں پیدا ہوتا ہے اور ملکی فوجداری قوانین میں وہ کون سے سقم ہیں جن کی وجہ سے ایف آئی آر درج کرنے کا معاملہ اس حد تک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے کہ عمران خان جیسا قومی لیڈر بھی شکایت کرتا ہے کہ اس کی مرضی کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ اسی حوالے سے سپریم کورٹ کو یہ بھی طے کرنے کی ضرورت ہے کہ جو کام ریاستی مشینری اور پولیس کے کرنے کا ہے، اس میں افراد کو کیوں کر ایسا حق یا اختیار دیا جاسکتا ہے کہ پولیس اپنی ابتدائی شکایت بھی کسی کی مرضی ہی کے مطابق درج کرنے پر مجبور کی جائے؟ یہ پیچیدہ اور گنجلک معاملہ ہے لیکن ہمارے عدالتی نظام میں کام کرنے والے جج اور ماہرین قانون ان پیچیدگیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس کے باوجود اصلاح احوال کے لئے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آتا۔
یوں تو یہ اسمبلیوں کا کام ہے کہ فرسودہ نظام قانون میں مناسب ترامیم کے ذریعے اسے عہد حاضر اور دنیا کے دیگر ممالک میں مروج طریقہ کار کے مماثل کیا جائے۔ البتہ اگر اسمبلیاں اس مقصد میں ناکام ہو رہی ہیں تو اعلیٰ عدالتوں کے پاس بہر صورت یہ اختیار موجود ہے کہ وہ بعض غیر واضح معاملات میں رہنمائی کریں اور جہاں بنیادی قانون ہی خرابی کا سبب بن رہا ہو تو اس کی اصلاح کے لئے متعلقہ اتھارٹی/حکومت کی توجہ مبذول کروائی جائے۔ ماضی میں سپریم کورٹ ملکی آئین میں ترمیم پر اصرار کرچکی ہے۔ اور حال ہی میں ایک آئینی شق کی توجیہ کے نام پر پانچ رکنی بنچ میں شامل دو ججوں کے الفاظ میں آئین کو ’از سر نو تحریر‘ کرنے جیسا اقدام کرچکی ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ کسی معاملہ میں ایف آئی آر جیسے ضروری اور حساس معاملہ میں کسی دوررس تبدیلی کا جائزہ لینے کی بجائے عدالت عظمی نے محض ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینا ہی کافی سمجھا۔
پاکستان کا فوجداری نظام قانون درحقیقت نوآبادیاتی نظام کی دین ہے۔ بدقسمتی سے اس میں تبدیلی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی حالانکہ اسی قانون سازی کی وجہ سے پولیس کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور معاشرے میں نظم و نسق قائم کرنے کے ذمہ دار اس بنیادی ادارے میں بدعنوانی اور رشوت ستانی فروغ پاتی ہے۔ عدالتیں بھی اس ناقص نظام قانون کے تحت انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اسی لئے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ متعدد قانون شکن ’مناسب شواہد‘ نہ ہونے کی بنیاد پر بری کر دیے جاتے ہیں اور پسماندگان ہاتھ ملتے رہتے جاتے ہیں۔ عوام کی بہبود اور نظام انصاف نافذ کرنے کے دعوے دار سیاست دان باہمی لڑائیوں میں اس حد تک مصروف رہے ہیں کہ ان بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔
جدید نظام قانون میں قانون نافذ کرنے والے اداروں یعنی پولیس کو کسی معاملہ کی شکایت درج کرنے اور تفتیش کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔ کوئی سیاسی ٹولہ یا عدالتی نظام اس کام میں رخنہ نہیں ڈال سکتا اور نہ ہی پولیس کا اختیار محدود کر سکتا ہے۔ انفرادی درخواست پر رپورٹ درج کرنے کا اختیار بھی درحقیقت پولیس کے ماہرین قانون ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ وہی کسی چوری یا باہمی تنازعہ کے کسی جرم کی تحریری شکایت وصول ہونے کے بعد قانونی جائزہ لے کر ابتدائی رپورٹ یا ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ البتہ فوجداری جرائم میں جن میں جان و مال پر حملہ جیسے جرائم شامل ہیں، پولیس پر ہی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شکایت درج کرے اور جسے چاہے اس میں نامزد کرے۔ وہ کسی کی خواہش یا مرضی کی تابع نہیں ہوتی۔
حال ہی میں ناروے کی سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے خود کو اپنی بیوی کی طرف سے زہریلا مواد کھلانے کی شکایت کی لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے پولیس کو شکایت کرنے سے انکار کیا کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ’انتقام‘ لینا نہیں چاہتے۔ لیکن ایک ملک کی سپریم کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس بھی پولیس کے اس حق کو محدود نہیں کر سکا کہ وہ واقعہ کی تحقیق کر کے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ یہ فیصلہ کرنا بہر حال پولیس ہی کا فرض سمجھا جاتا ہے کہ وہ کسی وقوعہ میں لاقانونیت کا سراغ لگانے کا حق استعمال کرے۔
پاکستان کا باوا آدم نرالا ہے۔ یہاں مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے اور اس کا حل تلاش کرنے کی بجائے مروجہ طریقہ ہی کو جاری رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ نہ یہ جاننے کی کوشش ہوتی ہے کہ پولیس کیوں جرم سرزد ہونے کے فوری بعد ایف آئی آر درج نہیں کرتی۔ یا لواحقین اور متعلقہ افراد کیوں اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ایف آئی آر میں انہی لوگوں کو نامزد کیا جائے جن کا نام وہ خود اپنے کسی ذاتی عناد، شبہ یا انتقامی مقصد سے تجویز کرتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے اپنے تازہ فیصلہ میں کسی حد تک اس جانب رہنمائی کی ہے اور مذہبی معاملات میں انفرادی شکایتوں کی حوصلہ شکنی کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی شکایات پر ریاست کو خود رد عمل دینا چاہیے۔ انفرادی شکایت پر مقدمہ درج کرنے سے انصاف فراہم نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین متنازعہ ہیں اور ان میں دوررس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تاہم ملک میں پائے جانے والے سیاسی و مذہبی ماحول میں اس حوالے سے بات کرنا بھی قابل گردن زدنی ہے۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے۔ البتہ سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ بلاسفیمی قوانین میں کسی ترمیم کے بغیر اصلاح احوال کا سبب بن سکتا ہے۔ اب تک تو یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ کوئی بھی شخص ذاتی دشمنی یا مفاد کی بنیاد پر کسی دوسرے کو پھنسانے کے لئے شکایت درج کرواتا ہے اور کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر متعلقہ شخص کو غیر معینہ مدت تک کے لئے جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔ پھر نہ عدالتوں میں شنوائی ہوتی ہے اور نہ ہی انصاف فراہم ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ پر حقیقی معنوں میں عمل ہونے سے مذہبی معاملات میں انفرادی شکایت پر گرفتاری کرنے اور مقدمے چلانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔