کئی زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صورتحال اگلے سال ملک میں شدید غذائی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ خالد کھوکھر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ زرعی شعبے کے لیے یہ سال بہت برا تھا۔ کاٹن کی پیداوار میں اس سال چونسٹھ فی صد کمی دیکھی جا رہی ہے، آم کی ساٹھ فی صد فصل موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔ کسانوں کو زرعی اجناس کا معقول معاوضہ نہیں مل سکا ۔اگلے سال کسان گندم کی فصل اگا کر نقصان اٹھانے کی بجائے دوسری فصلوں کو اگانے کو ترجیح دیں گے۔ ان کے خیال میں اگلے سال دس سے پندرہ فی صد گندم کم کاشت ہونے کا امکان ہے جبکہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار مناسب مقدار میں کھادوں اور ادویات کا استعمال نہیں کر سکیں گے۔ وہ مہنگا معیاری بیج استعمال کرنے کی بجائے گھر میں پڑا بیج ہی استعمال کریں گے، جس سے گندم کی پیداوار مزید کم ہو گی اور پاکستان کو باہر سے مہنگی گندم منگوانا پڑے گی۔
یاد رہے پاکستان کے کاشتکار پہلے ہی پانی کی قلت، جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کی کمی، موثر حکومتی زرعی پالیسیوں کے فقدان اور مناسب تحقیق کے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
پتوکی کے نواحی گاوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار محمد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت انتالیس سو روپے فی من مقرر کی تھی لیکن زیادہ گندم امپورٹ کرنے کے غلط فیصلے کی وجہ سے حکومت نے اس سال کسانوں سے گندم خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے کسانوں نے اپنی گندم بائیس سو روپے فی من کے حساب سے بیچی جس سے ان کی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں ہو سکی ہے۔ان کے بقول اب کسانوں کے لیے گھر چلانا بھی مشکل ہو گیا ہے اور وہ دودہ بیچ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ حافظ آباد کے ایک زمیندار محمد حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گندم سے بھی بری صورتحال چاول کی فصل کی ہے جس کی قیمت مارکیٹ میں بہت گر گئی ہے۔ ان کے مطابق ہائبرڈ چاول کی قیمت جو پچھلے سال پینتالیس سو روپے فی من تھی ان اٹھارہ سو روپے فی من تک گر چکی ہیں۔ عام طور پر ان دنوں زمین ٹھیکے پر لینے والے نقد رقم لے کر کسانوں کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے، اب ٹھیکے کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں کوئی بھی زمین ٹھیکے پر لینے کو تیار نہیں ہے۔
کاشتکار محمد حسین کے بقول کھاد بیج اور زرعی ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں جبکہ زرعی اجناس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق جب سیزن قریب آتا ہے تو ڈی اے پی اور دوسری زرعی مداخلات بلیک ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور کئی مرتبہ ان کی کوالٹی بھی بہتر نہیں ہوتی۔ محمد حسین سمجھتے ہیں کہ حکومت ان مافیاز پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ خالد کھوکھر کے بقول تین سال پہلے تک تو کسان کو آٹھ روپے پینتیس پیسے میں بجلی کا یونٹ ملتا تھا لیکن اب کسانوں کے لئے بجلی کے یونٹ کی قیمت ساٹھ روپے فی یونٹ تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بھارتی پنجاب میں کسانوں کو آٹھ گھٹے تک بجلی فری ملتی ہے۔ ” بھارت میں یوریا بیگ کی قیمت پاکستانی کرنسی میں ایک ہزار روپے کے قریب ہے یہاں اس کی قیمت چھیالیس سو روپے اور بلیک میں اس کی قیمت پچپن سو روپے ہوتی ہے۔ وہاں ڈی اے پی کی بوری چار ہزار پاکستانی روپوں میں ملتی ہے ہمارا کسان اس کے لئے چودہ ہزار روپے ادا کرتا ہے۔ ‘‘
زرعی ماہر صوبیہ روز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیاں زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں، روایتی موسم بدل رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، بے موسمی بارشیں ہو رہی ہیں اور فصلوں کی بوائی اور کٹائی کی تاریخیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال میں کسانوں کو زیادہ قوت برداشت کے حامل بیجوں کی طرف آنا ہوگا اور متفرق فصلوں کا ماڈل اپنانا ہوگا۔ ان کے مطابق اب کسانوں کو ایک فصل پر انحصار کی بجائے آمدن کے دوسرے ذرائع کی طرف بھی متوجہ ہونا ہو گا تاکہ اس کا نقصان کم سے کم ہو۔صوبیہ کی رائے میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لانگ ٹرم سنگین اثرات کا زیادہ ادراک نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یونیورسٹیوں اور پالیسی ساز اداروں کو نئی ورائیٹیوں کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں