گزشتہ جمعے لبنان میں اسرائیلی فضائی حملوں میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے بیان دیا کہ یہ آنے والے برسوں میں خطے میں طاقت کا تواز تبدیل کرنے کی جانب ایک قدم تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو اس وقت خطے میں طاقت کا تواز ن تبدیل کرنے کا ایک موقع نظر آرہا ہے اور ممکن ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں لیکن خواہشات کی تکمیل کے بعد بعض اوقات پچھتانا بھی پڑسکتا ہے۔
اگرچہ اسرائیلی فضائی حملوں، پیچر اور اس کے بعد واکی ٹاکی دھماکے حزب اللہ کے لیے کسی شاک سے کم نہیں تھے اور حسن نصر اللہ سمیت اعلیٰ قیادت کی شہادت نے حزب اللہ کو ضرور کمزور کیا لیکن اسرائیل کے لیے صورتحال بہت زیادہ حوصلہ افزا بھی نہیں ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہنا ہے کہ حالیہ تاریخ اسرائیلی رہنماؤں سمیت ان سب کے لیے کچھ تلخ اسباق لیے ہوئے ہے جو مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔
لبنان پر اسرائیلی حملہ
1982 میں اسرائیل نے لبنان پر چڑھائی کی تو اس کے پیش نظر 3 مقاصد تھے، پہلا مقصد لبنان میں پی ایل او کا قلع قمع کرنا، دوسرا مقصد لبنان میں ایک کٹھ پتلی حکومت بنانا اور تیسرا شامی افواج کو لبنان سے بے دخل کرنا۔
تاہم اسرائیل ان تینوں ہی مقاصد میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا، اگرچہ امریکی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت پی ایل او کے افراد کو یمن، تیونس اور دیگر ممالک جلاوطن کردیا گیا تاہم فلسطینیوں میں آزادی کے حصول کا جذبہ برقرار رہا اور 5 سال بعد غزہ میں پہلی فلسطینی انتفاضہ کا آغاز ہوگیا۔
اسرائیل کا لبنان میں ایک کٹھ پتلی حکومت بنانے کا مقصد بھی ادھورا ہی رہا کیونکہ اسرائیل جس شخص کو حکومت کا سربراہ بنانا چاہتا تھا وہ ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوگیا، بعد ازاں اس کے بھائی کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی جو بمشکل ایک سال ہی قائم رہ سکی۔ اس کے علاوہ شامی افواج بھی 2005 تک لبنان میں رہیں۔
اسرائیل کو 1982 میں لبنان پر حملے کا ایک ’تحفہ‘ حزب اللہ کے قیام کے نتیجے میں ملا جو شاید عرب دنیا کی اب تک کی واحد مسلح قوت ہے جس نے اسرائیل کو کسی عرب علاقے سے پسپائی پر مجبور کیا۔
عراق پر امریکی حملہ
تاریخ کا سبق صرف لبنان تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مثال عراق پر امریکی حملہ بھی ہے۔ عراقی فوج کے تباہ و برباد ہونے اور امریکی افواج کے بغداد پر قابض ہونے کے بعد امریکی حکومت کا خیال تھا کہ بس اب دمشق اور تہران میں بھی حکومتیں گریں گی اور لبرل جمہوریت کا دور دورہ ہوگا۔
ایسا تو کچھ نہ ہوا لیکن عراق پر امریکی قبضہ مسلکی و گروہی قتل و غارت گری کی صورت اختیار کرگیا جس کی قیمت خود امریکا کو بھی ادا کرنی پڑی۔ صدام حسین کے جانے سے ایران کو عراق میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے میں مدد ملی تو کمزور ہوچکی القاعدہ کو نئی توانائی ملی جو بعد ازاں داعش کی صورت میں ہمارے سامنے آئی۔
لبنان میں بہت کچھ غلط ہوسکتا ہے
2006 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران بھی امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزا رائس نے کہا تھا کہ یہ سب ایک نئے مشرق وسطیٰ کا نقطہ آغاز ہے۔
آج ہمیں ان رہنماؤں کے حوالے سے ہوشیار رہنا چاہیے جو نئے مشرق وسطیٰ کے خواب دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس مقصد کے حصول میں بہت کچھ غلط ہوسکتا ہے اور لبنان میں یہ سب ہونے کا امکان موجود ہے۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں