بیروت میں 27 ستمبر کو اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی موت نے لبنانی تنظیم کو ایک نازک موقع پر قیادت سے محروم کر دیا ہے۔ دو دن قبل دنیا بھر میں نشر ہونے والی تقریر میں اسرائیلی فوج کی شمالی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلیوی نے اپنے فوجیوں کو لبنان پر ممکنہ حملے کے لیے تیار ہونے کا حکم دیا۔
یہ ماننے کی ہر وجہ موجود ہے کہ جمعے کے فضائی حملے، جس میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جو جنوبی بیروت کے مضافاتی علاقے ضاحیہ میں واقع ہے، لبنان پر ممکنہ حملے کی تیاری کا حصہ تھے۔ یہ حملہ کئی دنوں کی بمباری کے بعد کیا گیا، جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس میں حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کا بیشتر حصہ ختم کر دیا گیا۔
25 ستمبر کو حلیوی نے اپنے فوجیوں سے کہا کہ وہ ’اندر جائیں گے، دشمن کو تباہ کریں گے اور حزب اللہ کے ڈھانچے کو فیصلہ کن طور پر نیست و نابود کر دیں گے۔‘
چونکہ حزب اللہ لبنانی آبادی میں گھلی ملی ہوئی ہے، اس حکمت عملی کے نتیجے میں معصوم شہریوں کی اموات کا اندیشہ ہے۔
2006 کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیلی دفاعی فورسز دونوں نے براہ راست تصادم سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ کئی سال سے، دونوں نے مکمل جنگ سے بچنے کے لیے تناسب کی پالیسی کے تحت ایک دوسرے کے خلاف محدود کارروائیاں کی ہیں۔
اگرچہ سات اکتوبر کے بعد دشمنی دوبارہ بھڑکی، تاہم گذشتہ ہفتے تک دونوں فریق تحمل سے کام لینے پر زور دے رہے تھے۔ تو پھر کیا تبدیل ہوا؟ کیا زمینی حملہ اب ناگزیر ہے؟ اور اگر ایسا ہوا تو اس کے حزب اللہ اور لبنان کے لیے کیا نتائج ہوں گے؟
اسرائیل کا ماضی لبنان میں فوجی مہمات کا ہے جو اس کے مخالفین کو طویل مدتی طور پر مضبوط بنانے کا باعث بنیں۔ فلسطین کی تنظیم آزادی (پی ایل او) کی تباہی حماس کے ابھرنے کو نہ روک سکی، بلکہ اس سے اس کو وجود میں آنے میں مدد ملی۔
اسی طرح اسرائیل کا پی ایل او کا جنوبی لبنان میں تعاقب حزب اللہ کی تخلیق کا باعث بنا۔ 1978 سے اب تک پانچ حملوں کے باوجود اسرائیل یہ ثابت نہیں کر سکا کہ وہ لبنانی سر زمین کے ایک چھوٹے سے حصے پر بھی کامیابی سے قبضہ کر سکتا ہے۔
اگرچہ دونوں فریق کئی سال سے نئے تصادم کی تیاری کر رہے ہیں، لیکن تازہ کشیدگی کا محرک 18 ستمبر کو سامنے آیا، جب اسرائیل نے پہلا وار کیا۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے کارکنوں کے ہزاروں پیجرز اور واکی ٹاکیز کو دھماکے سے اڑا دیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 32 افراد جان سے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
یہ تکنیکی حملہ کئی سالوں کی تیاری کا نتیجہ تھا اور اسے دشمن کو مفلوج کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کی کامیاب چال کہا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب حزب اللہ ان ڈیوائسز کے بارے میں مشکوک ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے اسرائیلی دفاعی فورسز کو کارروائی کرنی پڑی تاکہ ’سرپرائز‘ کا فائدہ نہ کھو دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپریشنل غور و فکر، حکمت عملی اور سیاسی ترجیحات پر فوقیت پا رہے ہیں، جو کہ تحقیق کے مطابق شاذ و نادر ہی ایک اچھا فیصلہ ہوتا ہے۔
تاہم ان حملوں کے حوالے سے مانا جا رہا ہے کہ انہوں نے مختصر مدت میں حزب اللہ کی کمانڈ کو شدید نقصان پہنچایا اور اسرائیلی قیادت کو مزید حوصلہ دیا ہے۔ 18 ستمبر کو اسرائیل کے وزیر دفاع یوآو گلانت نے اسرائیلی فوجیوں سے کہا: ’ہم جنگ کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس کے لیے جرات، عزم اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔‘ اگرچہ انہوں نے ڈیوائسز دھماکوں کا ذکر نہیں کیا، لیکن انہوں نے اسرائیلی فوج اور سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ ان کے نتائج شاندار ہیں۔
گذشتہ دنوں میں اسرائیلی فوج کی حکمت عملی وہ رہی جو اس ’بلیو لائن‘ پر کئی سال سے تیار کی جا رہی تھی، جو اسرائیل اور لبنان کے درمیان غیر رسمی سرحد ہے۔ جولائی 2006 کی جنگ میں اسرائیلی فوج کو شکست دینے میں ناکامی کے بعد حزب اللہ کے سینیئر عہدے دار بلیو لائن پر سرگرم اور واضح طور پر موجود رہے ہیں، جس پر اسرائیلی فوج گہری نظر رکھتی ہے۔
اس نگرانی نے اسرائیلی فوج کو حزب اللہ کی سینیئر قیادت کی تصویریں لینے، ان کی شناخت کرنے اور ان کا تعاقب کرنے کے قابل بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ سات اکتوبر سے اب تک ہم نے حزب اللہ کے اہم کمانڈروں کے مسلسل قتل ہوتے دیکھے۔ قتل ہونے والوں میں حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورس کے کمانڈر ابراہیم عقیل، حال ہی میں بیروت میں محمد سرور، اور دیگر کئی افراد شامل ہیں۔
اب اسرائیلی فوج کا ماننا ہے کہ اس نے حزب اللہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے یا کم از کم ایک ٹانگ پر کھڑا کر دیا ہے۔ موجودہ کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج اپنی برتری قائم رکھتے ہوئے اسی حکمت عملی سے کام لے رہی ہے جو اس نے غزہ میں اختیار کی۔ وہ ان تمام علاقوں پر بمباری کر رہی ہے جنہیں وہ کسی نہ کسی طرح ہدف قرار دے سکتی ہے اور جس کا تعلق حزب اللہ کے ساتھ تھا۔
یہ صورت حال لبنانی شہریوں کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بنی ہے۔ صحت کی وزارت نے جمعہ کو کہا کہ آٹھ اکتوبر 2023 سے اب تک ہزاروں افراد کی جان جا چکی ہے، جبکہ ہزاروں بے گناہ شہری زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لبنان بھر میں 533 پناہ گزین کیمپوں میں 70 ہزار زیادہ شہریوں نے رجسٹریشن کروائی اور اندازہ ہے کہ تقریباً 10 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
کیا حزب اللہ جوابی کارروائی کر سکتی ہے؟
حسن نصر اللہ کی موت کے بعد حزب اللہ عارضی طور پر سربراہ سے محروم ہو گئی ہے، جبکہ اس کے کئی اعلیٰ عہدے داروں کی موت نے اسے تجربہ کار کمانڈروں سے بھی محروم کر دیا ہے، جن میں سے بہت سے کمانڈروں نے حالیہ لڑائی کا تجربہ شام میں حاصل کیا۔ جنوبی لبنان میں بمباری کی وجہ سے حزب اللہ کے راکٹوں اور دیگر ہتھیاروں کی رسد کم ہو رہی ہے۔
تاہم اسرائیل کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حزب اللہ کھیل سے باہر ہو گئی یا اس کی صلاحیت کمزور پڑ چکی ہے۔ حزب اللہ کی اصل طاقت ہمیشہ اس کی آبادی میں گھل مل جانے کی صلاحیت میں رہی ہے، اور اگر اسرائیلی فوج دوبارہ زمین پر قدم رکھتی ہے، تو وہ مارو اور بھاگ جاؤ کی حکمت عملی کے ساتھ جنگ شروع کرنے کے لیے تیار رہے گی۔ یہ نکتہ کہ گذشتہ پانچ حملے ناکام رہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ نتیجہ 1982 اور 2006 کے درمیان کے حالات کا تجربہ دوبارہ ہو سکتا ہے۔
مزید برآں، تازہ اسرائیلی جارحیت کے جواب میں ایرانی ردعمل کے حوالے سے اب تک خاموشی ہے۔ یہ امکان نہیں کہ وہ حزب اللہ کو چھوڑ دے۔ ایک طویل، جاری رہنے والا، کم شدت کا تنازع ’محورِ مزاحمت‘ کے استعمال کردہ غیر متوازن حربوں کے حق میں ہوگا، جس میں لبنان کا ہمسایہ ملک شام بھی شامل ہے۔
لبنانی آبادی پر بمباری اور انہیں بے گھر کرنے کا اسرائیلی فوج کا مقصد ان کے حوصلے کو کم کرنا ہے۔ یہ اب نجی مکانوں اور عمارتوں کو تباہ کر رہی ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ حزب اللہ کے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے ذخیرے ہیں۔
لبنان میں مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کی بنیادی وجہ سمجھا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، اسرائیلی فوج یہ امید کر رہی ہے کہ لبنانی لوگ حزب اللہ کے خلاف ہو جائیں گے، کیونکہ اس نے شمالی اسرائیل پر راکٹ حملے کرکے ان پر نئی جنگ مسلط کر دی ہے۔
تاہم لبنان میں بہت سے لوگ حزب اللہ اور اس کی جنوبی لبنان میں سرگرمیوں کی حمایت نہیں کرتے۔ اسرائیلی فوج کو ماضی یاد رکھنا چاہیے۔ اگرچہ آج حزب اللہ کے خلاف جذبات زیادہ ہیں، لیکن لبنان میں اس وقت جو بے تحاشا بمباری ہو رہی ہے، اسے عوام طویل عرصے تک برداشت نہیں کریں گے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1982 میں جب اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان پر حملہ کیا تو کچھ لبنانیوں نے اسے چاول اور پھولوں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ اسے پی ایل او سے آزاد کروانے والا سمجھا گیا۔ لیکن یہ خیرمقدم زیادہ دیر جاری نہیں رہا۔
2006 میں اسرائیلی فورسز نے اس طرح کی حکمت عملی اختیار کی جس میں شہریوں کے انخلا کرنے والے قافلوں اور اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈز کو نشانہ بنایا گیا۔ اور ایک بار پھر عوامی رائے کا جھکاؤ تیزی سے ’المقوامہ‘ (مزاحمت) کے حق میں ہو گیا۔
اسرائیلی فوج کا واضح مقصد حزب اللہ کو دریائے لیطانی کے شمال کی طرف دھکیلنا ہے، تاکہ اسے اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی تعمیل پر مجبور کیا جا سکے اور شمالی اسرائیل میں بے گھر لوگوں کو اپنے گھروں میں واپس آنے کا موقع ملے۔ لیکن اسرائیل اور اس کی فوج کے لیے یہ خیال کرنا بے وقوفی ہوگی کہ کوئی بھی حملہ یا بمباری کی مہم، چاہے وہ عارضی طور پر کتنی ہی کامیاب کیوں نہ ہو، اسرائیلی شہریوں کو طویل مدت میں نیلی لکیر کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کے قابل بنائے گی۔
آخر میں، آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کے لیے ایک میز پر آئیں۔ لبنان میں اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی کی انسانی قیمت سوچنے کے لیے دل دہلا دینے والی ہے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ نفرت پیدا کرے گی اور پائیدار امن کی بنیاد فراہم کرنے کی بجائے اسرائیل مخالف عسکریت پسندوں کی نئی نسل پیدا ہوگی۔
شفقنااردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں