پاکستان میں شاید ہی کوئی ایک شخص ایسا ہو جسے یہ یقین نہ ہو کہ مولانا فضل الرحمان حکومت کی تجویز کردہ آئینی ترامیم کی حمایت پر راضی ہوجائیں گے۔ البتہ وہ سیاسی بیان بازی اور لچھے دار گفتگو سے فوج مخالف بیانیہ میں بھی حصہ دار بننا چاہتے ہیں، جمہوریت کے چیمپین بھی کہلانا چاہتے ہیں اور جس پارلیمنٹ میں وہ ’کردار‘ ادا کرنے کا اعلان کر رہے ہیں، اسے جعلی اور غیر نمائندہ کہنے پر بھی مصر ہیں۔
ایک بار پھر اپنی ’حقیقی جمہوری پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام کے پھر سے صدر ’منتخب‘ ہونے کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا ہے گویا حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے ملک پر فوج مسلط کرنے اور مارشل لا جیسے حالات پیدا کرنا چاہتی تھی جسے مولانا کی دلیری نے روک دیا۔ لیکن اہل پاکستان کے سامنے مولانا فضل الرحمان کا کل اور آج پوری طرح عیاں ہے۔ وہ مدرسوں کی سیاست اور سیاسی چال بازی سے ہر سیٹ اپ میں اپنے لیے جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ کامیابی مولانا کی حکمت یا کسی اصول پرستی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتی بلکہ یہ ملک کی سیاسی پارٹیوں میں غیر جمہوری کلچر اور اقتدار میں رہنے کی ہوس کے سبب حاصل ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ ربع صدی کے دوران تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال کو چھوڑ کر کوئی ایسا دور نہیں گزرا جب مولانا کسی نہ کسی صورت حکومت کا حصہ نہ رہے ہوں۔ آج وہ بلند آہنگ لہجے سے سیاست میں فوجی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں۔ اور پاکستانی میڈیا انہیں زیرک اور معاملہ فہم سیاست دان کہنے میں رطب اللسان رہتا ہے حالانکہ آسان لفظوں میں مولانا فضل الرحمان موقع پرست سیاست دان ہیں۔
انہوں نے خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں چند نشستوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا ہے یا وہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ سودے بازی کے نتیجے میں بعض نشستوں کو اپنی میراث سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ مولانا کی کل سیاست مفادات کی سیاست ہے اور اس کا عوام کے مفادات اور حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی صورت حال میں ’ختم نبوت‘ کی حفاظت کے نعرے کی مدد سے عوامی جذبات کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ ایک احمدی کو ضمانت دینے پر ملک کی سپریم کورٹ کے خلاف محاذ آرائی کا حصہ بنے اور عدالت عظمی کو اپنا نظر ثانی شدہ ’فیصلہ‘ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ اب آئینی ترامیم کی نام نہاد مزاحمت کے نام پر وہ عدلیہ کی خودمختاری کے ضامن بننے کا ڈھونگ کر رہے ہیں۔ حالانکہ مبارک ثانی کیس میں وہ خود اس تحریک کے سرخیل تھے جس نے ملک میں اعلیٰ ترین عدالت کے بھرم، وقار، اتھارٹی اور اس سے وابستہ انصاف کی تمام امیدوں کو دفن کیا تھا۔ مذہبی جذبات بھڑکا کر سیاسی مفادات حاصل کرنے والے کسی شخص کو ملکی سیاست کا ہیرو کہنا یا اس سے کسی اصولی موقف کی امید رکھنا ممکن نہیں۔ ایسے تمام مذہبی رہنما محض اپنے قلیل المدتی مفادات کے لیے مذہب کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ان مذہبی لیڈروں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
مولانا کا کل مشن اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔ وہ اسمبلی کی سیٹوں اور حکومت سے جڑے مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ وہ شفافیت کا دعویٰ کرتے ہوئے ملی بھگت سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ایک چھوٹے سے سیاسی گروہ کے سربراہ ہیں۔ اور آج میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں ہلکا نہ لیا جائے۔ حالانکہ ساڑھے تین سو ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں 8 ارکان کی پارلیمانی پارٹی کا کتنا ’وزن‘ ہو سکتا ہے؟ لیکن انہیں یہ اہمیت دوسری بڑی پارٹیوں کے سیاسی مفادات و ترجیحات کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ مولانا کو اس کامیابی پر اترانے کی بجائے حقیقت حال کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ وہ کامیاب ضرور ہیں کیوں کہ مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف، وہ مولانا کی چند سیٹوں کی وجہ سے انہیں ساتھ ملا کر دوسرے کو ناکام بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
حکومت کو آئینی ترامیم کے لیے پارلیمنٹ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 13 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ البتہ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ کسی طرح مولانا کو حکومت سے دور کیا جائے تاکہ حکومتی اتحاد اپنے سیاسی مقاصد حاصل نہ کرسکے۔ اس کھینچا تانی میں مولانا فضل الرحمان اس وقت ملک کے سب سے اہم لیڈر بن کر غراتے پھر رہے ہیں۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ ہفتہ عشرہ قبل سابق اسپیکر اور تحریک انصاف کے لیڈر اسد قیصر کے ظہرانے میں شرکت کے بعد مولانا فضل الرحمان نے پوری استقامت سے اعلان کیا تھا کہ ہم نے حکومت کی آئینی تجاویز کو مکمل طور سے مسترد کر دیا ہے۔ اس معاملہ پر کوئی لین دین نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد سے نہ جانے کہاں سے کون سا جادو مولانا کے سر چڑھ کر بولا ہے کہ مولانا مسلسل اس بیان کے معنی تبدیل کرنے کے جتن کر رہے ہیں۔
پشاور میں میڈیا سے گفتگو اسی کوشش کا حصہ ہے۔ اس بیان سے اخباروں میں سنسنی خیز خبریں لگوا کر ایک نئی سیاسی قلابازی کے لیے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ آج پشاور میں میڈیا سے بات چیت کی رپورٹنگ میں مولانا کے حوالے سے لگنے والی سرخیوں کا متن کچھ یوں ہے : ’یہ آئینی ترمیم کے ذریعے ملک میں مارشل لا لگا رہے تھے۔ یا یہ جعلی پارلیمنٹ ہے، اسے آئینی ترامیم کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ یا پھر یہ کہ پارلیمنٹ جعلی ہے ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں‘ ۔ حالانکہ اس میڈیا ٹاک میں مولانا کا اصل پیغام یہ ہے کہ ’ملک میں آئینی عدالت بنانا درست اقدام ہے اور عدلیہ میں اصلاحات ضروری ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے بلکہ تحریک انصاف کو بھی اس طرف مائل کرنے کی کوشش کریں گے‘ ۔
مولانا آئینی ترامیم کی ضرورت و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ترمیم ایسی لائیں جس سے پبلک کو ریلیف ملے اور جمہوریت مستحکم ہو۔ لیکن پارلیمنٹ ہی ایسی نصیب ہوئی ہے جسے ہم عوام کا مینڈیٹ نہیں سمجھتے‘ ۔ اب وہ اسی جعلی اور غیر منتخب پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ آئینی تجاویز کا مسودہ شیئر کرنے کے بعد انہیں اتفاق رائے پر آمادہ کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ جعلی ہے یا اسے عوام نے ووٹ نہیں دیے تو وہاں صرف آئینی ترامیم ہی نہیں، کسی بھی قسم کی قانون سازی بھی ناجائز ہونی چاہیے۔ لیکن مولانا پر یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ’مولوی کی باتوں پر نہ جاؤ، یہ دیکھو وہ کرتا کیا ہے‘ ۔ مولانا جمہوریت کے چمپین بننے کے بعد جعلی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کے لیے ووٹ دیتے ہوئے اسے اپنا تاریخ ساز جمہوری کردار قرار دیں گے۔ اور چاہیں گے حکومت کے علاوہ تحریک انصاف بھی ان کی توصیف کرتی دکھائی دے۔
مولانا فضل الرحمان کی سیاست اس وقت اسی ایک نکتہ کے گرد گھوم رہی ہے۔ پرویز مشرف کے دور سے لے کر وہ ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ البتہ عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی ساڑھے تین سال کی حکومت میں انہیں حکومت میں کوئی حصہ نہیں ملا اور عمران خان نے انہیں ’فضلو یا مولوی ڈیزل‘ کے خطابات دیے بلکہ وہ مولانا کا نام لینے کی بجائے مولانا فضل الرحمان کو انہی ناموں سے پکارتے تھے۔ جواب میں مولانا، عمران خان کو یہودی ایجنٹ ثابت کرنے کا جتن کرتے رہے ہیں۔ مولانا جیسی سرسبز سیاست کرنے والے کسی شخص کے سینے پر تحریک انصاف سے دشمنی کا رشتہ بھاری پتھر کی طرح موجود تھا۔ خاص طور سے جب انہیں یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف مقبول سیاسی جماعت ہے اور مستقبل میں ایک بار پھر اقتدار میں آنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تحریک انصاف موجودہ سیاسی مشکلات میں ہر اس گروہ کو ساتھ ملانا چاہتی ہے جس کی کوئی سیاسی حیثیت نہ ہو لیکن اس کے ذریعے بڑی سیاسی پارٹیوں کو سائیڈ لائن کیا جا سکے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مولانا تحریک انصاف کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں تاکہ مستقبل میں اگر سیاسی حالات کی کسی کروٹ کے سبب تحریک انصاف اقتدار میں آ جائے تو وہ مولانا کے احسانات کا بدلہ چکانا یاد رکھے۔
اتنا سا مقصد حاصل کرنے کے لیے مولانا بیان و گفتار کی تمام صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ حالانکہ اگر انہیں جمہوریت درکار ہے اور وہ جعل سازی کو مسترد کرتے ہیں تو حکومت یا اس کی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ کسی قسم کی مواصلت، اس وقت تک بند کریں جب تک وہ نئے انتخابات کا مقصد حاصل نہیں کر لیتے۔ پارلیمنٹ جعلی ہے لیکن مولانا کو عزیز ہے کیوں کہ اس میں قلیل سی نمائندگی ہی کی وجہ سے وہ بیک وقت حکومت اور تحریک انصاف کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ مولانا آئینی ترامیم کی حمایت پر تیار ہیں لیکن وہ تحریک انصاف کو بھی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ تو ان کے جمہوری حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں ’مخلصانہ مشورہ‘ بھی دے دیتے ہیں کہ فارم 47 کی بحث کو بھول جاؤ، علی امین گنڈا پور کو لگام دو اور آئینی ترامیم کو مان لو۔
کہا جاسکتا ہے کہ مولانا کسی بازی گر کی طرح سیاسی میدان کے تنے ہوئے رسّے پر چل رہے ہیں لیکن یہ ایک ایسا میدان ہے جس کے دونوں طرف بڑی سیاسی پارٹیاں اپنا دامن کشادہ کیے چشم براہ ہیں۔ تاکہ مولانا اگر لڑھک بھی جائیں تو انہیں کوئی گزند نہ پہنچے۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں