دارالحکومت خرطوم کی گلیوں سے لے کر دارفور کے ویران دیہات تک، ڈیڑھ برس سے جاری خانہ جنگی نے سوڈان کو ایک ایسے انسانی بحران کی گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے جس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ اقتدار کی ہوس میں لڑنے والے دو جرنیلوں کے ہاتھوں یہ افریقی ملک زوال کی انتہا کو چھو رہا ہے، جہاں لاکھوں شہری قحط کے سائے اور ظلم و ستم کی آندھی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اپریل 2023 میں جب ملک کی باقاعدہ فوج (SAF) کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان اور نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے کمانڈر جنرل محمد حمدان دقلو (حمیدتی) کے درمیان طاقت کی بساط پر تار چڑھا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ خون خرابے کی صورت میں نکلے گا۔ صرف دو سال قبل، یہ دونوں جرنیل ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اور انہوں نے مل کر ایک سویلین حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ مگر سویلین اقتدار کی طرف منتقلی اور RSF کو فوج میں ضم کرنے کے عمل نے ان کے درمیان کی خلیج کو اتنا وسیع کر دیا کہ یہ ملک گیر جنگ میں بدل گئی۔ یہ تنازعہ اب محض فوجی جھڑپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے ملک میں نسلی بنیادوں پر منظم تشدد اور قتل عام کے خونی پنجے گاڑ دیے ہیں۔ مغربی دارفور، بالخصوص الفاشر، اس بربادی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ الفاشر پر RSF کے قبضے کے بعد اجتماعی ہلاکتوں، جنسی زیادتی اور لوٹ مار کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستانیں سامنے آئی ہیں، جنہیں عالمی ضمیر نسل کشی اور جنگی جرائم سے تعبیر کر رہا ہے۔
جنگ کی اصل جڑ: سونے اور دولت کی ہوس
اس خونی تنازعے کی رگوں میں اصل ایندھن سوڈان کے قدرتی وسائل، خاص طور پر سونے، کی شکل میں بہہ رہا ہے۔ سوڈان افریقہ میں سونے کی پیداوار کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے، اور اس کا بیشتر سونا RSF کے زیرِ کنٹرول علاقوں، خاص طور پر دارفور اور کردوفان سے نکلتا ہے۔ RSF کے سربراہ حمیدتی نے اپنی طاقت کا سارا محل اسی سونے کے کاروبار پر کھڑا کیا ہے۔ ان کے خاندان کی ملکیت میں موجود کمپنیاں ان کانوں پر قابض ہیں، اور غیر قانونی طریقے سے اسمگل کیے جانے والے سونے سے حاصل ہونے والا پیسہ RSF کے جنگی اخراجات، اسلحہ اور بیرونی حمایت خریدنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ سونا زیادہ تر متحدہ عرب امارات (UAE) پہنچایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ معدنی دولت نہ صرف مقامی جھگڑے کو ہوا دے رہی ہے بلکہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کو بھی اس تنازعے میں بالواسطہ ملوث کر رہی ہے۔ جنگ کی ایک بڑی وجہ SAF اور RSF کے درمیان انہی منافع بخش سونے کی کانوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی دیرینہ کشمکش ہے۔
جنگ کے بے رحم جھٹکوں نے سوڈانی عوام کی کمر توڑ دی ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، اس وقت یہ بحران دنیا میں قیامت خیز نقلی مکانی کا طوفان بپا کر چکا ہے۔ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، جن میں سے ایک کروڑ سے زیادہ افراد داخلی طور پر بے گھر ہیں، جبکہ لاکھوں نے جان بچانے کے لیے ہمسایہ ممالک جیسے چاڈ، جنوبی سوڈان اور مصر کا رخ کیا ہے۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ تہس نہس ہو چکا ہے ؛ دارالحکومت خرطوم کا بیشتر حصہ کھنڈرات میں بدل کر تاریخ کے ماتھے کا داغ بن چکا ہے۔ ہسپتالوں، سکولوں اور آبی نظام کو ایسا شدید نقصان پہنچا ہے کہ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات کا نظام بدحالی کے عالم میں دم توڑ چکا ہے۔ اس انسانی المیے کی زد میں لاکھوں لوگوں کو خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بنیادی ضروریات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ خاص طور پر دارفور اور کردوفان کے علاقوں میں قحط سر اٹھا چکا ہے، اور 25 ملین سے زائد افراد زندگی بچانے کے لیے شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ہیضے اور خسرے جیسے وبائی امراض کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ پر شدید خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بچوں پر اس جنگ کے اثرات بربادی کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔ یونیسف کے مطابق، بے گناہ بچے لڑائی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، اور لاکھوں بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ والدین کے سامنے بچوں کے قتل اور جگر کو کاٹ دینے والی بچھڑنے کی کہانیاں سوڈان میں جاری ظلم کی شدت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔
سوڈان میں جاری تباہی کے مقابلے میں عالمی برادری کا ردعمل مجرمانہ حد تک بے حسی کا شکار رہا ہے۔ بعض علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں انسانی ہمدردی کے لبادے میں درپردہ طور پر متحارب فریقین کو اسلحہ اور مالی مدد فراہم کر کے اس تنازعے کی آگ میں تیل ڈالنے کا کام کر رہی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد سوڈان کے عوام کو امن دینا نہیں، بلکہ اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات کو تقویت دینا، اور سونے کی کانوں سے ہونے والی دولت کے بہاؤ کو جاری رکھنا ہے۔ متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے اگرچہ انسانی امداد کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کیے ہیں، لیکن عالمی سفارتی کوششیں بار بار ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی جانب سے جنگ بندی اور انسانی امداد کی رسائی کے مطالبات محض رسمی بیانات بن کر رہ گئے ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ انسانی امداد کی ترسیل میں جان بوجھ کر روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، اور محصور شہریوں تک پہنچنا ناممکن ہو چکا ہے۔
سوڈان ایک خاموش موت مر رہا ہے۔ اس ملک کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے فوری اور موثر عالمی مداخلت ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ متحارب فریقین پر ہر ممکن سفارتی اور اقتصادی دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ فوری اور دیرپا جنگ بندی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، تمام علاقوں، خاص طور پر قحط زدہ علاقوں میں، انسانی امداد کی بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنایا جانا چاہیے، اور شہریوں کے خلاف ہونے والے منظم قتل عام اور جنسی تشدد کی بین الاقوامی سطح پر آزادانہ تحقیقات کی جائیں اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ دنیا کی خاموشی اب وہاں کے شہریوں کو ایسا گھاؤ لگا رہی ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے۔ یہ وقت ہے کہ بین الاقوامی برادری اس بحران کو اپنی اولین ترجیح بنائے اور ایک ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کی شکل دے۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کااس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں