Top Posts
پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی کے عہدے...
اقوام متحدہ نے پاکستان کی قرارداد برائے حق...
پاکستان نے مزید 100 ٹن امدادی سامان غزہ...
امن معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسرائیل کا...
: پاکستان نے سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز...
 فلسطین اور اسرائیل کیلئے امن اور ابراہیمی معاہدے...
بھارت پاکستان پر دوبارہ حملہ کرنے کو تیار...
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی  ماسکو میں...
گزشتہ سال 2 لاکھ 57 ہزار برطانوی شہری...
  امریکا اور سعودی عرب کے درمیان سول...
  • Turkish
  • Russian
  • Spanish
  • Persian
  • Pakistan
  • Lebanon
  • Iraq
  • India
  • Bahrain
  • French
  • English
  • Arabic
  • Afghanistan
  • Azerbaijan
شفقنا اردو | بین الاقوامی شیعہ خبر رساں ادارہ اور تجزیاتی مرکز
اردو
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • آپ کی خبر
  • بلاگ
  • پاکستان
  • تصویری منظر نامہ
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • صحت وتعلیم
  • عالمی منظر نامہ
  • فیچرز و تجزیئے
  • کھیل و کھلاڑی
  • وڈیوز
  • رابطہ

نیا ضابطہ اخلاق عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ؟ آصف محمود

by TAK 12:55 | منگل نومبر 4، 2025
12:55 | منگل نومبر 4، 2025 31 views
31
یہ تحریر انڈی پینڈنٹ اردو میں شائع ہوئی
عدلیہ کے نئے ضابطہ اخلاق پر بحث جاری ہے اور ایک طالب علم کے طور پر میں سوچ رہا ہوں کہ اس میں آخر ایسی کون سی چیز ہے جس سے عدلیہ کی آزادی کو مبینہ طور پر شدید خطرہ محسوس ہو رہا ہے؟
اس ضابطہ اخلاق میں کچھ بھی نیا نہیں، یہ اصول تو بہت پہلے ہی طے ہو چکے تھے۔ بس اتنا ہوا ہے کہ نئے تقاضوں کے مطابق ایک دو اصولوں کی تشریحِ جدید کر دی گئی ہے۔
یہ ضابطہ اخلاق بنیادی طور پر وہی ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل نے 1962 میں وضع کیا تھا۔ اس سال ستمبر میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی اسی کی روشنی میں ماتحت عدلیہ کے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا جو کم و بیش ویسا ہی تھا جیسا اب سپریم جوڈیشل کونسل نے اعلیٰ عدلیہ کے لیے جاری کر دیا ہے۔  
اگر ایک چیز ماتحت عدلیہ کے لیے ضروری ہے اور اس سے ماتحت عدلیہ کی آزادی خطرے میں نہیں پڑتی تو اسی چیز سے اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
عشروں پہلے بنایا گیا ضابطہ اخلاق کہتا ہے کہ ایک جج کا فرض ہے کہ وہ عوام کے سامنے اپنا امیج ’قوم کے جج‘ کے طور پر پیش کرے۔ یعنی تیرے جج اور میرے جج کے تاثر کی نفی کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں کیا غلط ہے؟
یہ سوچنا اب قوم اور قانون دانوں کا کام ہے کہ اگر عدلیہ سے کوئی سیاسی جماعت اور رہنما تو بین السطور سسلی مافیا قرار پائے اور کسی کو صادق اور امین کے القابات کے ساتھ ’گڈ ٹو سی یو‘ جیسی گرم جوشی ملے تو کیا اس سے ’قوم کے جج‘ کا تاثر قائم ہوتا ہے یا پامال۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو البتہ اس پر بھی رہنمائی فرمانی چاہیے کہ کیا یہ فرض صرف جج صاحبان کا ہے کہ وہ ’قوم کا جج‘ بن کر دکھائیں یا کچھ ذمہ داری ان کی بھی ہے جو جج صاحبان کا انتخاب کرتے ہیں کہ انتخاب کرتے وقت وہ بھی صرف ’قوم کے جج‘ کا انتخاب کریں اور تیرے اور میرے جیسے دیگر تمام عوامل نظر انداز کر دیں۔
ضابطے کے آرٹیکل ٹو میں لکھا ہے کہ ایک جج کو مضبوط ہونا چاہیے لیکن سخت یا درشت نہیں۔ یہ بات بھی درست ہے اور اس سے آزادیِ عدلیہ کو کسی قسم کا خطرہ نہیں۔
البتہ وکلا حضرات یا سائلین (جو کم بخت نو آبادیاتی نظام ختم ہونے کے باوجود آج تک سائلین ہی کہلاتے ہیں) یہ گذارش کر سکتے ہیں کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اس اصول پر جج حضرات کو پرکھنے یا اس اصول کے اطلاق کا کوئی نظام اور ضابطہ کار موجود ہے اور کیا کبھی اس کا اطلاق ہوا؟
ضابطے کا آرٹیکل فور کہتا ہے کہ ایک جج کو ایسے کسی مقدمے کی سماعت سے قطعی اور حتمی انکار کر دینا چاہیے جس میں اس کا یا اس کے قریبی رشتہ دارں یا قریبی دوستوں کا مفاد وابستہ ہو۔ یہ بھی ایک جائز اصول ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی کو کوئی خطرہ نہیں۔
ضابطہ اخلاق کی عملی افادیت کے لیے البتہ ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی جج کے اہل خانہ یا قریبی عزیز کسی خاص سیاسی جماعت کی جانب اعلانیہ جھکاؤ رکھتے ہوں تو کیا اس جج کو اس جماعت سے متعلقہ کوئی مقدمہ سننا چاہیے؟
اور اگر ماضی میں سنا گیا ہے اور سنا جاتا رہا ہے تو اس وقت یہ اصول لاگو کیوں نہ ہو سکا؟
یہاں تو ایک چیف جسٹس صاحب اپنے بیٹے کا مقدمہ خود لے کر عدالت میں بیٹھ گئے اور جب ہر طرف سے تنقید ہوئی کہ الزام بیٹے پر ہو تو مقدمہ باپ کیسے سن سکتا ہے، تو تب جا کر خود کو اس مقدمے سے الگ کیا۔
آرٹیکل 10 کہتا ہے کہ جج کو وہ تمام اقدامات کرنے چاہییں جن سے مختصر ترین مدت میں مقدمے کا فیصلہ سنایا جا سکے۔ جو جج ایسا نہیں کرتا وہ اپنے کام سے مخلص نہیں ہے اور یہ شدید قسم کی خامی ہے۔
یہ اصول بھی جائز اصول ہے۔ البتہ یہاں بھی وہی سوال اٹھتا ہے کہ اس اصول کے اطلاق کی کوئی عملی شکل بھی ہے؟
یہ سوال اس وقت اہم ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک فیصلے پر اضافی نوٹ میں لکھا کہ اس فیصلے کو لکھنے کی ذمہ داری بینچ میں موجود ایک جج کو دی گئی مگر انہوں نے فیصلہ لکھنے میں 223 دن لگا دیے۔ (شاہ تاج شوگر ملز بنام حکومت پاکستان (2024 ایس سی ایم آر 1656)۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آرٹیکل 10 کے اطلاق کی بھی کوئی عملی اور ٹھوس صورت موجود نہیں، حتیٰ کہ چیف جسٹس کے پاس بھی نہیں۔ 223 دنوں کی تاخیر پر وہ بھی صرف اضافی نوٹ ہی لکھ سکتا ہے؟
آرٹیکل 12 میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج کسی سماجی، ثقافتی، سیاسی یا سفارتی تقریب میں شرکت نہیں کرے گا۔ اس پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اس سے عدلیہ کا عوام سے تعلق کم ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ عدلیہ کے فرائض میں کہاں لکھا ہے کہ اس کا کام عوام سے تعلق رکھنا ہے؟ عدلیہ کا کام عوام سے تعلق رکھنا نہیں، عوام کو انصاف دینا ہے۔ ایسی تقاریب میں جج صاحبان کی شرکت سے جو قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں وہ سب جانتے ہیں۔
آرٹیکل 14 میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج، بار کے کسی عہدے دار کی انفرادی دعوت یا ڈنر وغیرہ کو قبول نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بالکل درست بات ہے اور اس کی افادیت مسلمہ ہے۔
آرٹیکل 13 کے مطابق کسی بھی غیر ملکی ایجنسی کی جانب سے کسی جج کو اس کے نام سے دعوت نامہ وصول کرنے کی اجازت نہیں اور اسے مس کنڈکٹ قرار دیا گیا ہے۔ ایسے کسی بھی ادارے سے کہا جائے کہ وہ اپنا دعوت نامہ چیف جسٹس کے ذریعے بھیجے۔
وہی سوال کہ براہ راست دعوت ناموں کو ادارہ جاتی ڈھالنے میں لانے سے عدلیہ کی آزادی کو کون سا خطرہ لاحق ہو گیا؟ غیر ملکی اداروں کے دعوت ناموں میں ایسا کون سا تقدس ہے کہ انہیں ضابطے میں لانے سے عدلیہ کی آزادی ہی کو خطرہ لاحق ہونے کا شور مچا دیا جائے؟
ملک میں مقدمات کا انبار لگا ہو تو بیرونی دوروں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کم از کم اسے چیف جسٹس کی اجازت سے مشروط کر دینے میں تو بالکل کوئی قباحت نہیں کیوں کہ ایک جج کے بیرون ملک چلے جانے کا معاملہ دیگر اداروں سے بالکل مختلف ہے۔
عام اداروں میں کوئی رخصت پر چلا جائے تو اس کی جگہ لینے کے لیے متبادل موجود ہوتے ہیں لیکن یہاں ایک جج کے بیرون ملک چلے جانے سے وہ سارے بینچ عملا غیر فعال ہو جاتے ہیں جن میں وہ جج صاحب شامل ہوتے ہیں۔
آرٹیکل فائیو پر سب سے زیادہ شور مچا ہوا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ جج کسی بھی صورت میں عوامی سطح پر متنازع امور میں خود کو ملوث نہیں کرے گا، بھلے اس کا تعلق کسی قانونی سوال سے ہی کیوں نہ ہو۔
اس میں البتہ ایک ابہام ہے اور اس ابہام پر اعتراض قابل فہم ہے۔ متنازع امور کی وضاحت ممکن نہیں تو یہی بتا دیا جائے کہ غیر متنازع امور کون سے ہوتے ہیں۔
ضابطہ اخلاق جج صاحبان کو میڈیا سے دور رہنے کی ہدایت کر رہا ہے۔ اس پر بھی بڑا اعتراض ہو رہا ہے لیکن میرے نزدیک یہ اس ضابطہ اخلاق کی سب سے شاندار چیز ہے۔
ضابطہ اخلاق میں اگر کوئی بڑی خامی ہے تو صرف ایک کہ اس کے اطلاق کا کوئی بامعنی اور ٹھوس میکنزم اس وقت تک نظر نہیں آ رہا۔ اسے پوری معنویت کے ساتھ  نافذ ہونا چاہیے۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں
27 ویں ترمیمآرٹیکل 62سپریم جوڈیشل کونسلنو آبادیاتی نظام
0 FacebookTwitterLinkedinWhatsappTelegramViberEmail
گزشتہ پوسٹ
صحافیوں کے خلاف جرائم: سب سے پہلے حکومت کٹہرے میں کھڑی ہو/سید مجاہد علی
اگلی پوسٹ
بیانیے کی جنگ! عاصمہ شیرازی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

سینٹ نے 26ویں ترمیم کو دوتہائی اکثریت سے...

15:41 | اتوار اکتوبر 20، 2024

سیاسی تصادم میں غیر منتخب حکومت کے اندیشے/سید...

15:51 | جمعہ جولائی 19، 2024

ایڈہاک ججز کی تعیناتی: پی ٹی آئی کا...

12:44 | جمعرات جولائی 18، 2024

وزارت قانون نے جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی...

09:38 | منگل مئی 7، 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ کا کسی بھی مداخلت پر...

04:46 | بدھ اپریل 24، 2024

مظاہرنقوی کا سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے کو...

03:52 | جمعہ مارچ 8، 2024

سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جج مظاہر نقوی...

16:43 | جمعرات مارچ 7، 2024

جسٹس مظاہر علی کا کیس سپریم کورٹ کی...

03:21 | جمعہ جنوری 12، 2024

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے...

14:37 | جمعرات جنوری 11، 2024

صدر مملکت نے جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ...

08:53 | جمعرات جنوری 11، 2024

تبصرہ کریں Cancel Reply

میرا نام، ای میل اور ویب سائٹ مستقبل میں تبصروں کے لئے محفوظ کیجئے.

تازہ ترین

  • پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی کے عہدے داروں کے 23 ارب 40 کروڑ کے اثاثے منجمد کر دیئے

  • اقوام متحدہ نے پاکستان کی قرارداد برائے حق خود ارادیت متفقہ طور پر منظور کر لی

  • پاکستان نے مزید 100 ٹن امدادی سامان غزہ روانہ کردیا

  • امن معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسرائیل کا لبنان پر حملہ: 13 افراد جاں بحق

  • : پاکستان نے سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پہلے میچ میں زمبابوے کو 5 وکٹوں سے شکست دے دی

  •  فلسطین اور اسرائیل کیلئے امن اور ابراہیمی معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں: محمد بن سلمان

  • بھارت پاکستان پر دوبارہ حملہ کرنے کو تیار تھا: امریکی صدر کا دعویٰ

  • نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی  ماسکو میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات: اقتصادی تعاون پر بات چیت

  • گزشتہ سال 2 لاکھ 57 ہزار برطانوی شہری ملک چھوڑگئے

  •   امریکا اور سعودی عرب کے درمیان سول نیوکلیئر معاہدے پراتفاق: وائٹ ہاؤس اعلامیہ

  • کینیڈین حکومت نے خالصتان ریفرنڈم کی باضابطہ اجازت دے دی: رہنما سکھ فار جسٹس تحریک

  • پنجاب حکومت دیگر صوبوں میں بھی ٹی ایل پی کا پیچھا کرے گی

  • الفاشر کا قصائی: سوڈان کی اذیت کیسے اس کا تماشا بن گئی/احمد مغل

  • واٹس ایپ کا وہ خفیہ فیچر جس سے آپ کسی نمبر کو سیو کیے بغیر بھی مسیج بھیج سکتے ہیں

  • وزن گھٹانے والی ادویات کچھ لوگوں میں آنکھ کے امراض کا سبب بن سکتی ہیں

  • جرمنی نے اسرائیل پر اسلحہ برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا

  • ناروے نے اٹلی کو شکست دے کر 28 سال بعد فیفا ورلڈ کپ میں جگہ بنا لی

  • حسینہ شیخ کی سزائے موت سے نہ امن آئے گا اور نہ جمہوریت/سید مجاہدعلی

  • نیا سماجی معاہدہ ناگزیر ہو چکا ہے/ڈاکٹر راجہ قیصر احمد

  • بہار الیکشن میں مودی نے غیرمعمولی کامیابی کیسے حاصل کی؟ عامر خاکوانی

مقبول ترین

  • چھپکلی کی جلد سے متاثرہ بھوک لگانے والا کیپسول

  • میں نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کیا: جوبائیڈن کا قوم سے خطاب

  • مہاتیر محمد نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا

  • ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی معطل کرنے کے معاہدے پر دستخط

  • اسلام آباد: میجر لاریب قتل کیس میں ایک مجرم کو سزائے موت، دوسرے کو عمر قید

  • مکمل لکڑی سے تراشا گیا کارکا ماڈل 2 لاکھ ڈالر میں نیلام

  • کیا ہندوستان کی آنے والی نسلیں مسلم مخالف نفرت میں اس کی زوال پزیری کو معاف کر دیں گی؟/شاہد عالم

  • دی نیشن رپورٹ/پاکستانی جیلوں میں قید خواتین : اگرچہ ان کی چیخیں دب گئی ہیں مگر ان کے دکھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا

  • عورتوں سے باتیں کرنا

  • سی سی پی او لاہور نے آئی جی کے ‘اختیارات’ کو چیلنج کرکے نیا ‘پنڈورا بکس’ کھول دیا

@2021 - All Right Reserved. Designed


Back To Top
شفقنا اردو | بین الاقوامی شیعہ خبر رساں ادارہ اور تجزیاتی مرکز
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • آپ کی خبر
  • بلاگ
  • پاکستان
  • تصویری منظر نامہ
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • صحت وتعلیم
  • عالمی منظر نامہ
  • فیچرز و تجزیئے
  • کھیل و کھلاڑی
  • وڈیوز
  • رابطہ